Live Updates

ں*موجودہ وفاقی بجٹ آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کرنے والا بجٹ ہے، قوم مسترد کرتی ہے

ئ*مہنگی بجلی سے نجات حاصل کرنے کے لئے سولر صارفین پر بھی 18 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے ژ*پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے محب وطن قیادت کی ضرورت ہے ، مقررین 'جماعت اسلامی کے پوسٹ بجٹ سیمینار سے محمد جاوید قصوری ، ڈاکٹر شاہدہ وزارت، خالد عثمان ، پروفیسر محمد اکرم، عبد الرشید مرزا ، ڈاکٹر بابر رشیدکا خطاب

جمعرات 12 جون 2025 21:55

h/لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 جون2025ء) عوام نے وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا ہے ۔ یہ اشرافیہ کا بجٹ ہے، عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا،پاکستان کا موجودہ بجٹ ملک کو بحرانوں سے نکالنے والا نہیں ہے ۔ہر آنے والا سال پاکستان کو اور زیادہ گرداب میں مبتلا کرتا جا رہا ہے ۔پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے اس ملک کو ایماندار ، محب وطن قیادت کی ضرورت ہے ۔

جماعت اسلامی اپنی جدوجہد جا ری رکھے گی۔ان خیالا ت کا اظہار مقررین نے جماعت اسلامی پنجاب کے زیر اہتمام منصورہ میںپوسٹ بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ امیر جماعت اسلامی پنجاب محمد جاوید قصوری کی صدارت میں منعقد ہونے والے پوسٹ بجٹ سیمینار سے قائمقام صدر لاہور چیمبرآف کامرس خالد عثمان ، ڈاکٹر بابر رشید ،عبد الرشید مرزا ، ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،شہزاد ہارون، پروفیسر محمد اکرم نے خطاب کیا جبکہ اس موقع پر ذکر اللہ مجاہد، چوہدری شوکت ، عبد العزیز عابد ،محمد فاروق چوہان محسن بشیر ،چوہدری عبد الواحد،عدنان نذیر،فیا ض ساجد ، محمد عمران الحق و دیگر بھی موجود تھے ۔

(جاری ہے)

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد جاوید قصوری نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بجٹ میں پانی، تعلیم، ہیلتھ، زراعت، موسمیاتی تبدیلی، سپارکو جیسے اہم شعبوں کے ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگایا گیا ہے۔جس سے حکمرانوں کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔صحت کے 21 منصوبوں کے لئے صرف 14.3 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، آئی پی پیز کی لوٹ مار سے ستائے اورمہنگی بجلی سے نجات حاصل کرنے کے لئے سولر صارفین پر بھی 18 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔

اس پر مستراز حکومت نے بجلی کے بلوں پر 10 فیصد سر چارج لگانے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت نے عوام کو لوٹنے کی قسم کھا رکھی ہے۔500 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں سے مہنگائی کا بڑا طوفان آئے گا جو عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہو گا، المیہ یہ ہے کہ عوام کا پہلے ہی جینا مشکل ہو چکا ہے جبکہ ریلیف کی بجائے حکومت نت نئے طریقوں اور ٹیکسز سے شہریوں پر مزید بوجھ ڈال رہی ہے۔

حکومت اپنے شاہی اخراجات کم کرنے کی بجائے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہی ہے۔ وفاقی بجٹ 2025-26 میں ارکان سینیٹ کی تنخواہوں کی مد میں ایک ارب چھ کروڑ 38لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ پچھلے بجٹ میں 56کروڑ 56لاکھ 90ہزار روپے رکھے گئے تھے۔ چیئرمین سینٹ، ڈپٹی چیئرمین اور ان کے اسٹاف کے لئے 18 کروڑ 96لاکھ روپے تجویز کی گئی ہے جبکہ گزشتہ بجٹ میں چیئرمین سینٹ، ڈپٹی چیئرمین اور ان کے اسٹاف کے لئے 13 کروڑ 79لاکھ روپے مختص کئے گیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے عام شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریب عوام کے لیے روزمرہ کی اشیائے ضروریہ خریدنا مزید دشوار ہو گیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا ء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔ آٹا، چینی، گھی، دالیں، سبزیاں اور پھل سب مہنگے ہو چکے ہیں جبکہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد جبکہ پنشن میں سات فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرح میں آٹے میں نمک کے برابر کمی کی گئی ہے۔پاکستان مشکل معاشی اور بحرانی صورتحال سے دوچار ہے، مگر اداروں کی ری سٹرکچرنگ اور اصلاحات جیسے دیرپا حل کی بجائے انہی لوگوں کی جیب سے رقم نکلوائی جارہی ہے جو پہلے ٹیکسز ادا کررہے ہیں۔

حالیہ وفاقی بجٹ میں پہلی مرتبہ ای کامرس اور آن لائن خریداری کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے۔خالد عثمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں کاروبار بڑھانے کے لئے کوئی پالیسی نہیں دی گی ، صنعت ترقی کرے گی تو ہی ملک کے اندر روزگار پیدا ہو گا اور ملک میں خوشحالی آئے گی ۔جتنی فیکٹریاں چلیں گئیں اتنی آمدن بڑھے گی ۔پاکستان اس وقت 2.67فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہا ہے جبکہ ملک میں اس وقت پچاس لاکھ نوجوان ایسے ہیں جن کی عمریں 18سال کی ہیں ۔

جس کا مطلب ہے کہ انہیں روزگار دینا ہو گا ۔ المیہ یہ ہے کہ پندرہ، سولہ کروڑ لوگ ایسے ہیں جو صرف روٹی کھا سکتے ہیں تو وہ فیکٹریوں کی اشیاء کیسے خرید سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں خاص طور پر نوجوان نسل کسی نہ کسی طرح ای کامرس یا آن لائن منصوعات یا خدمات سے جڑی ہوئی ہے مگر ابھی تک یہ کلیئر نہیں ہو سکا کہ ڈیجیٹل اکانومی کی ٹیکسیشن کام کیسے کرے گی۔

ڈاکٹر شاہد ہ وزارت نے کہا کہ دنیا تقسیم ہو چکی ہے ، ایک طرف ایسے ملک ہیں جو حالت جنگ میں ہیں جبکہ دوسری جانب ایسے ممالک ہیں جو اپنی معیشت سے لڑ رہے ہیں۔موجودہ حکمرانوں نے ایگری کلچر اور سروس سیکٹر کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔مالی سال 2025-26 ء کیلئے پٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر ڈھائی روپے فی لٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کی جارہی ہے۔

یوں فی یونٹ بجلی اور فی لٹر پٹرول کی قیمت میں اضافے سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ حکمرانوں نے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سب کی زندگی اجیرن بنا دی ہے ۔ پروفیسر اکرام نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں نے ملک و قوم کو بند گلی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ملکی حالات دن بدن ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔حالیہ وفاقی بجٹ نے حکومتی معاشی ناکامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔

ریاستی وسائل اور حکومتی طاقت سے جھوٹ پر مبنی تشہیری مہم معیشت کو بحال نہیں کر سکتی۔ حقائق سچائی ہوتے ہیں اور جھوٹی تشہیری مہم حکمرانوں کو ہی ننگا کر دیتی ہے۔ قرض، سود، کرپشن، بدانتظامیوں کے ساتھ معیشت بحال نہیں کی جا سکتی۔اقتصادی سروے نے حکومتی معاشی اعداد و شمار کی قلعی کھول دی ہے مسلسل سیاسی بحران کی وجہ سے قومی سیاست و معیشت بے یقینی کا شکار رہی جس کا براہ راست نقصان غریب عوام کو بھاری بھرکم ٹیکسز کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔

ڈاکٹر بابر رشید نے کہا کہ مجموعی طور پر بجٹ کا عوام دوست ہونا نظر نہیں آتا۔ حکومت نئے ٹیکس نہ لگانے کے دعوے کرتی رہی، مگر اب 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیے گئے۔ اگر شفاف ٹیکس کلیکشن پر توجہ ہو تو نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام آدمی کے لیے بجٹ کو موجودہ شکل میں قبول کرنا مشکل ہے۔ حکومت اگر عوام کو ریلیف دے تو بجٹ کی منظوری آسان ہو سکتی ہے۔

ملک کی معاشی صورتحال سے ہر پاکستانی پریشان اور اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہے،قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے وقت یہ بات واضح کر دی تھی کہ مملکت خداداد پاکستان کا معاشی نظام اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا,متفقہ دستور کے مطابق پاکستان میں سود کا نظام غیر آئینی ہے۔ عبد الرشید مرزا نے کہا کہ سود اور سودی نظام نے معاشرتی اور عوامی زندگی کے ساتھ خاندانی سسٹم پر بھی کاری ضرب لگائی۔

دین اسلام ماشاء اللہ مکمل زندگی کا احاطہ کرتا ہے اس کا معاشی نظام قابل ذکر اور قابل رشک ہے۔ جن ممالک نے اسلامی نظام بینکنگ کا آغاز کیا ہوا وہ ترقی اور معاشی معراج تک پہنچ گئے ہیں۔ہماری بد قسمتی ہے واضح دینی احکامات اور قوانین کے باوجود بھی نجی اور سرکاری سطح پر آج تک سودی نظام کا طوطی بولتا ریا ہے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ میں ہی ہماری تمام مشکلات کا حل موجود ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے نفاذ کیلئے مثبت کردار اداکیا جائے۔ ہمارے حکمران مغرب اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساہوکاروں کی دھمکیوں سے مرعوب ہیں، وگرنہ سودی نظام سے کب سے جان چھڑا لی جاتی۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات