اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جون 2025ء) کم عمری کی شادی کے خلاف یہ بل ابھی صرف شہر اقتدار میں ہی قانون بن کر لاگو ہو گا لیکن کم از کم بچیوں کے حقوق کے تحفظ کی شروعات تو ہوئیں۔ اس بل کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی شادی نہ صرف غیر قانونی بلکہ قابلِ سزا جرم قرار دی گئی ہے۔
نکاح خواں پر بھی فردِ جرم عائد ہو گی اور اگر بچی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا کر شادی کی گئی تو اسے اسمگلنگ کے زمرے میں لایا جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ شادی سے قبل تھیلیسیمیا جیسے موروثی امراض کے خون کے ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد صرف یہ ہے کہ بچیوں کو بہتر زندگی، صحت مند جسم اور تعلیم کے مساوی مواقع دیے جائیں۔ یہ بل صدر پاکستان کے دستخط کے بعد اب قانون کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔(جاری ہے)
لیکن مقام حیرت سمجھیے یا افسوس کہ اس سادہ سی بات پر بھی پاکستان میں ایک بھاری بحث کھڑی ہوئی۔
ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اس قانون کو انسانیت اور بچوں کے تحفظ کے حق میں ایک تاریخی قدم سمجھتے ہیں اور دوسری طرف مذہبی جماعتیں اور کچھ علماء، جو اس کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمان جیسے بڑے مذہبی رہنما نے نہ صرف اس قانون کو شریعت کے منافی قرار دیا بلکہ یہاں تک کہا کہ اسلام آباد میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی کے خلاف بل منظور نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ان کا موقف ہے کہ بلوغت کے بعد نکاح کی اجازت شریعت میں موجود ہے، اس لیے ریاست کو عمر کی حد مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔ ان کے بقول اس طرح کی قانون سازی قومی یکجہتی کو نقصان پہنچاتی ہے، گویا بچوں کے تحفظ کا قانون کوئی سازشی ایجنڈا ہو۔اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اپنے اجلاس میں اس بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ کونسل نے نا صرف بل کی مختلف دفعات کو غیر اسلامی قرار دیا بلکہ اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
اس رویے سے یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ مذہبی ادارے کسی بھی ایسی قانونی تبدیلی کو جو بچیوں کے حق میں ہو، شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں بچوں کا تحفظ نہیں، بلکہ صدیوں پرانی روایات کی غیر لچکدار تشریحات کو قائم رکھنا ہے۔پاکستان سے پہلے کئی مسلم ممالک جیسے تیونس، مصر اور مراکش نے شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر کر رکھی ہے۔
ان ممالک نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کیونکہ بچپن کی شادیوں کے سنگین جسمانی، ذہنی اور سماجی نقصانات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے قانونی بنیاد موجود ہے۔ 2023 میں وفاقی شرعی عدالت نے سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے تحت دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا تھا کہ شادی کی کم از کم عمر طے کرنا ریاست کی صوابدید ہے۔2023 کی یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا 18فیصد لڑکیاں 18 برس سے کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں، جبکہ 4 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 برس سے بھی کم عمر میں کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں اس شرح میں معمولی کمی ہوئی ہے تاہم یہ مسئلہ اب بھی لاکھوں بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 12 ملین لڑکیوں کی شادی 18 برس سے پہلے کر دی جاتی ہے۔
اس قانون کی مخالفت کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق مطابق بچپن کی شادی کے خلاف بل بچوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے اور پارلیمنٹ سے منظور شدہ بل کو مذہب سے متصادم قرار دینا بچوں کے حقوق کی نفی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ اس قانون پر فوری عملدرآمد ضروری ہے تاکہ بچیوں کے استحصال کی روک تھام ہو سکے، اور ریاست اپنی آئینی و بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے۔
ایچ آر سی پی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی بل میں رکاوٹ ڈالنے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکطرفہ مذہبی تشریحات قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہییں۔یہ بات افسوسناک ہے کہ جن لوگوں کو معاشرے میں روشنی پھیلانی چاہیے وہی اندھیرے پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ان سے سوال ہے کہ کیا انہوں نے کبھی خواتین پر تشدد، تعلیم کی کمی، یا آبادی میں بے تحاشہ اضافے جیسے مسائل پر آواز بلند کی؟ کیا وہ کبھی سڑکوں پر نکلے کہ ایک بچی کو تعلیم اور زندگی جینے کا حق دیا جائے؟ نہیں، کیونکہ ان کے نزدیک صرف وہ قانون قابلِ اعتراض ہے جو عورت کو تحفظ دیتا ہے، اسے انسان سمجھتا ہے اور اس کے بچپن کو اس کے حال اور مستقبل سے جوڑتا ہے۔
یہ بل صرف ایک قانونی دستاویز نہیں، بلکہ پاکستان کی اجتماعی سوچ میں تبدیلی کی ایک بھی امید ہے۔ یہ پیغام ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف سانس لینے کے لیے نہیں، جینے کے لیے پیدا کرتے ہیں۔ انہیں کم عمری میں شادی کے بندھن میں جکڑنا صرف ان کے جسم پر نہیں بلکہ ان کی روح پر بھی ظلم ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔