غزہ میں انسانی ساختہ قحط اخلاقی جرم اور انسانیت کی ناکامی، یو این چیف

یو این ہفتہ 23 اگست 2025 07:45

غزہ میں انسانی ساختہ قحط اخلاقی جرم اور انسانیت کی ناکامی، یو این چیف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 اگست 2025ء) غزہ میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ قحط جیسے حالات کا شکار ہیں جہاں بڑے پیمانے پر بھوک، مفلسی اور قابل انسداد اموات کا راج ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اسے انسانی ساختہ تباہی، اخلاقی جرم اور انسانیت کی ناکامی قرار دیا ہے۔

غذائی تحفظ کے مراحل کی مربوط درجہ بندی (آئی پی سی) کے مطابق، آئندہ ایام میں غزہ شہر سے لے کر دیرالبلح اور خان یونس تک قحط جیسی صورتحال متوقع ہے جہاں ہزاروں لوگ روزانہ فاقے کرتے ہیں۔

بھوک سے بڑھتی ہوئی اموات اور شدید غذائی قلت کے تناظر میں اقوام متحدہ کے ادارے فوری اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیتے آئے ہیں۔

Tweet URL

سیکرٹری جنرل نے واضح کیا ہے کہ قحط کا تعلق محض خوراک کی عدم دستیابی سے نہیں بلکہ انسانی بقا کے لیے درکار نظام کو دانستہ ختم کرنا بھی قحط ہے۔

(جاری ہے)

قابض طاقت کی حیثیت سے بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیلی پر واضح ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقامی آبادی کو خوراک اور طبی سازوسامان کی فراہمی یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا ہےکہ اسرائیل کی اپنے فرائض سے پہلو تہی نہیں کر سکتا۔ اب مزید بہانے نہیں بنائے جا سکتے اور حالات میں بہتری لانے کے لیے کل کے بجائے آج ہی کام شروع کرنا ہو گا۔

جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ

اقوام متحدہ کے اداروں نے سیکرٹری جنرل کی بات دہراتے ہوئے غزہ میں بلاتاخیر جنگ بندی، انسانی امداد کی بلارکاوٹ اور بڑے پیمانے پر فراہمی اور حماس سمیت فلسطینی جنگجوؤں کی حراست میں تمام یرغمالیوں کی بلاتاخیر اور غیرمشروط رہائی پر زور دیا ہے۔

اداروں نے ایک مشترکہ بیان میں غزہ شہر پر اسرائیل کی سخت عسکری کارروائی کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بڑھنے سے شہریوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جبکہ علاقے میں پہلے ہی قحط جیسے حالات ہیں۔

ان علاقوں سے بیمار اور غذائی قلت کا شکار بچوں، معمر لوگوں اور جسمانی معذور افراد کے لیے انخلا ممکن نہیں ہو گا جس سے ان کی زندگیاں خطرے میں رہیں گی۔

تباہ کن غذائی قلت

'آئی پی سی' کے مطابق، ستمبر کے اواخر تک غزہ بھر میں 640,000 افراد کو تباہ کن درجے کی غذائی قلت کا سامنا ہو گا جو کہ غذائی عدم تحفظ کا پانچواں درجہ ہے۔ علاوہ ازیں، 11 لاکھ 40 ہزار لوگ چوتھے درجے کی بھوک کا سامنا کریں گے جبکہ 396,000 افراد کو تیسرے درجے کی غذائی قلت درپیش ہو گی۔

شمالی غزہ میں حالات مزید خراب ہیں جہاں زندگی کو تحفظ دینے کے لیے امدادی رسائی کی ضرورت ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امدادی اداروں کو اپنا کام کرنے کی اجازت دی جاتی تو اس قحط کو روکا جا سکتا تھا۔

زرخیز زمین پر قحط کی فصل

ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث غزہ کی سرحد پر امدادی خوراک کے ڈھیر لگے ہیں جبکہ وہاں سے چند سو میٹر کے فاصلے پر زرخیز زمین قحط سے دوچار ہے۔

ان حالات کے بارے میں بہت پہلے سے خبردار کیا جاتا رہا لیکن ذرائع ابلاغ کے عالمی اداروں کو غزہ میں جا کر اطلاعات دینے کی اجازت نہ ملی۔

ان کا کہنا ہے کہ، یہ 2025 کا قحط ہے۔ یہ 21ویں صدی کا ایسا قحط ہے جو ڈرون اور تاریخ کی جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کے زیر نگرانی پھیل رہا ہے۔ اس قحط کو بعض اسرائیلی رہنماؤں کی طرف سے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ ایسا قحط ہے جو دنیا کو پریشان کرتا رہے گا اور اسے کرنا چاہیے۔

اقوام محدہ کے اداروں نے کہا ہے کہ غزہ کے بچوں میں غذائی قلت تباہ کن رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ جون میں ہی 12 ہزار سے زیادہ بچوں میں شدید غذائی قلت پائی گئی جو ماہانہ بلند ترین تعداد اور جنوری کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔

زرعی رقبے کی تباہی

'آئی پی سی' کے گزشتہ تجزیے کے بعد غزہ میں غذائی قلت سے متوقع طور پر ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد جون 2026 تک 43,400 تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے جو پہلے 14,100 تھی۔

جولائی سے غزہ میں آنے والی خوراک اور دیگر سازوسامان کی مقدار میں قدرے اضافہ ہوا ہے لیکن اب بھی یہ مقدار ضروریات کے مقابلے میں ناکافی اور ناقابل رسائی ہے۔

غزہ میں 98 فیصد زرعی علاقے کو جنگ میں بری طرح نقصان پہنچا ہے یا وہ ناقابل رسائی ہو گیا ہے۔ اس طرح مقامی سطح پر زراعت اور خوراک کی پیداوار ختم ہو چکی ہے اور لوگ مکمل طور پر انسانی امداد کے محتاج ہیں۔