اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 جون 2025ء) ابتداء ہی سے انسان کو کھانے کے ذائقے کا احساس رہا ہے اور اسی وجہ سے کھانے کو لذیذ بنانے کے لیے مختلف مصالحہ جات کا استعمال شروع ہوا۔ کھانے میں مٹھاس کا استعمال بھی غذا کا ایک حصہ بن گیا۔ ابتداء میں شہد کو میٹھے میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن جب گنے کی کاشت شروع ہوئی تو اس کے رس سے شکر بنانے کا خیال آیا۔
اس سلسلے میں ہندوستان نے اولیت حاصل کر لی۔اس نے پہلے گنے کے رس کو اُبال کر پہلے گُڑ تیار کیا۔ ابتدا میں گُڑ انتہائی قیمتی چیز تھی۔ اس کو بطور کرنسی بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ گُڑ کے علاوہ صاف اور شفاف شکر بھی تیار کی جاتی تھی جو حکمرانوں اور اُمراء کے کھانے کے لیے ہوتی تھی۔ولندیزی مصنف Ulbe Bosma (البی بوسمہ) نے "The World of Sugar" کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں شکر پیداوار کی مفصل تاریخ دی ہے۔
(جاری ہے)
شکر کی پیداوار کا دوسرا اہم ملک چین تھا۔ سونگ خاندان کے عہد میں چین کی شکر جنوب مشرق کے ایشیائی ملکوں میں جایا کرتی تھی۔
تائیوان شکر کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز بن گیا تھا۔ چائنہ کے ماہرین سیام (تھائی لینڈ)، کمبوڈیا، کوریا اور ویتنام میں جا کر شکر کے کارخانوں میں کام کرتے تھے۔ جاوا میں جو ایک ڈچ کالونی تھی، وہ بھی شکر کی پیداوار میں آگے بڑھ گئی تھی۔ یہ سترہویں صدی کی بات ہے۔ مصر میں مملوکوں کے عہد میں شکر کی پیداوار سسلی اور اندلس تک جاتی تھی۔ ہندوستان اور چین کی ٹیکنالوجی کو سیکھ کر پرتگال نے برازیل کی کالونی میں شکر کے کارخانے لگائے۔اس کے بعد شکر کے کارخانے مشرق سے نکل کر مغرب میں پہنچے۔ اسپین نے کیوبا اور لاطینی امریکہ میں کارخانوں کی بنیاد رکھی۔ شکر کی پیداوار میں انقلابی تبدیلی اس وقت آئی جب انگلستان اور فرانس نے کیریبیئن جزائر میں شکر کے کارخانے شروع کیے۔ چونکہ ان کو مزدوروں کی ضرورت تھی جو گنے کی کاشت کریں پھر ان سے رس نکال کر شکر بنائیں۔
لہٰذا اس مقصد کے لیے کارخانے کے مالکوں نے غلامی کا کاروبار شروع کیا اور افریقہ سے غلاموں کو خرید کر ان سے کھیتوں اور کارخانوں میں محنت و مشقت کرائی گئی۔
یہ غلام صبح سے شام تک کام کرتے تھے۔ ان کو نہ تو پیٹ بھر کر کھانا دیا جاتا تھا اور نہ مکمل آرام کے لیے کوئی وقت دیا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ یہ صحت یاب نہیں رہتے تھے اور بعض صورتوں میں غلام زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کر لیتے تھے لیکن کارخانوں کے مالکوں کو اس کی کوئی فکر نہ تھی۔ وہ مرنے والوں کی جگہ دوسرے غلام خرید کر لے آتے تھے۔اس بدترین سلوک کے نتیجے میں کچھ غلام فرار ہو کر دور دراز کے علاقے میں چلے جاتے تھے۔ یہ علاقے میرون کہلاتے تھے۔ غلاموں کی بغاوتیں بھی ہوئیں۔ 1791 میں فرانس کی کالونی سینٹ ڈومینگو میں غلاموں نے بغاوت کی اس کے علاوہ جمیکا میں انگریز مالکوں کے خلاف بغاوتیں ہوئیں جنہیں سختی سے کچل دیا گیا۔
جب اخباروں میں غلاموں کی حالت زار پر لکھا گیا تو 1804 میں برطانوی پارلیمنٹ نے غلاموں کے خلاف ایک قرارداد منظور کی۔
اس کے بعد غلاموں کے خلاف تحریکیں شروع ہوئیں۔ اس عرصے میں شکر کے کارخانوں میں نئی ٹیکنالوجی نے غلاموں کی ضرورت کو کم کر دیا۔ اس کے بعد افریقہ سے غلاموں کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا۔ 1834 میں انگلستان نے غلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ برطانوی نیوی ان بحری جہازوں کی تلاشی لیتی تھی، جن میں افریقی غلاموں کو لایا جاتا تھا۔ غلاموں کے خلاف اس مہم میں انگلستان کے عوام نے بھی حصہ لیا۔ انہوں نے اس شکر کو خریدنا بند کر دیا جو کیریبیئن جزائر سے آتی تھی۔ اس کی جگہ انہوں نے ہندوستان کی شکر کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔غلامی کے نظام کے خاتمے کے نتیجے میں کیریبیئن جزائر کے شکر کے کارخانے بند ہونا شروع ہو گئے۔ اس صورت حال کی وجہ سے کارخانوں کے مالکوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان میں جا کر اپنے کارخانے شروع کریں گے۔
کیونکہ ہندوستان میں مزدوری سستی تھی اس لیے کارخانے کے مالکوں کو بڑا منافع ہوا۔امریکہ میں Philadelphia میں شکر کے کارخانے شروع ہوئے۔ ان میں گنے کے رس کے علاوہ چقندر سے بھی شکر بنائی جانے لگی۔ لہٰذا مجموعی طور پر شکر کی پیداوار اس قدر بڑھی کہ یہ اشیاء کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی میسر آنے لگی۔
شکر کے استعمال نے دنیا کے معاشروں کو سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر تبدیل کیا۔
بڑے شہروں میں کیفے کھلنا شروع ہو گئے جہاں کافی اور چائے کے ساتھ شکر کے استعمال لازمی تھا۔ بیکریوں نے بسکٹ، کیک اور مختلف مٹھائیاں بنانا شروع کر دیں۔ میٹھی ڈش غذا کا اہم حصہ ہو گئی۔ خاص طور سے تہواروں پر مٹھائیوں کا عام استعمال ہوتا تھا جو آج تک جاری ہے۔ ہندوستانی مسلمان عیدالفطر کو میٹھی کہتے ہیں۔شکر کی پیداوار نے کئی انقلابی تبدیلیاں بھی کیں۔
مثلاً غلامی کا کاروبار ختم ہوا اور جہاں جہاں غلامی تھی، غلام آزاد ہو کر روزگار کی تلاش میں مختلف ملکوں میں گئے۔ گنے کی کاشت نے زمین کی زرخیزی کو ختم کر دیا۔ کئی ڈاکٹروں نے یہ تنبیہ بھی کی کہ شکر کا زیادہ استعمال صحت کی خرابی کا باعث ہوتا ہے لیکن جب لوگ اس کے ذائقے کے عادی ہو گئے تو اس کے استعمال ترک نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ دور میں اب ایسی بہت سی مٹھائیاں ہیں جو شوگر فری کر دی گئی ہیں۔شکر کی تاریخ سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ سرمایہ دار کو اپنے منافع کی فکر ہوتی ہے وہ عام لوگوں کی محتاجی کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اس کی تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان ایجادات کے ذریعے اپنے ماحول کو بدلتا رہا ہے۔ اشرافیہ کا طبقہ اپنے محلات، سہولت اور آرام کی خاطر عام لوگوں کی قربانی کو بھلا کر اپنی جائیداد کا تحفظ چاہتا ہے۔
اگر اسے اپنے ملک میں یہ تحفظ نہیں ملتا تو وہ اپنے سرمائے کو لے کر کسی دوسرے ملک میں منافع کی تلاش میں چلا جاتا ہے۔ شکر کی تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مصنوعات کو شہرت دے کر کس طرح لوگوں کو اس کا عادی بنایا جاتا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔