Live Updates

15ویں نمبر والے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟ کیا 14 جج قابل نہیں تھے؟ جسٹس نعیم اختر افغان کا سوال

جوڈیشل کونسل یا آرٹیکل 6 کے تحت بننے والی سپیشل کورٹ کے ججز مخصوص مدت کیلئے ہوتے ہیں لیکن آرٹیکل 200 کے تحت جج کا تبادلہ مستقل ہے یا عارضی ہوگا؟ دوران سماعت ریمارکس

Sajid Ali ساجد علی بدھ 18 جون 2025 15:41

15ویں نمبر والے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟ کیا 14 جج قابل نہیں تھے؟ جسٹس ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 جون 2025ء ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس نعیم اختر افغان نے ججز سینیارٹی اور ٹرانسفر کیس مین کئی اہم سوالات اٹھا دیئے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ججز سینیارٹی اور ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جہاں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ یہ کیس سن رہا ہے، آج کی سماعت کے دوران عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف عمران خان کے وکیل ادریس اشرف کو دلائل سے روک دیا اور ہدایت دی کہ پہلے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اپنے دلائل مکمل کریں کیوں کہ ان کے دلائل پر شاید جواب الجواب دینا پڑے لہٰذا بانی پی ٹی آئی کے وکیل ان کے بعد اپنے دلائل پیش کریں۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’1955ء میں گورنر جنرل کے آرڈر سے مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا، تمام ہائیکورٹس کی سطح کی عدالتوں کو یکجا کرکے ایک عدالت قائم کی گئی، اُس وقت ہائیکورٹس کو یکجا کرتے ہوئے ججز کی گزشتہ سروس کو آنر کیا گیا اور تقرری کی تاریخ پر سینیارٹی لسٹ ترتیب دی گئی، 1970ء میں ون یونٹ کی تحلیل کے بعد جب ججز کو مختلف ہائیکورٹس میں ٹرانسفر کیا گیا تب بھی ان کی سابقہ سروس کو تسلیم کیا گیا، 1976ء میں جب سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹس کو الگ کیا گیا تب بھی دونوں عدالتوں میں ٹرانسفر کیے گئے ججز کی سابقہ سینیارٹی برقرار رکھی گئی‘۔

(جاری ہے)

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ ’اس کیس میں صورتحال مختلف ہے، ون یونٹ پر نئی عدالتی تشکیل ہوئی تھی اور تحلیل پر نئی ہائیکورٹس بنی تھیں یہاں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے پر کوئی نئی تشکیل یا تحلیل نہیں ہوئی‘، اس پر امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ ’ماضی میں ہمیشہ ججز کی سابقہ سروس کو ٹرانسفر کے وقت تسلیم کیا گیا، پرویز مشرف سنگین غداری ٹرائل کے لیے سپیشل کورٹ تشکیل دی گئی جس میں تین ہائیکورٹس کے ججز شامل کیے گئے تھے اور ان میں سب سے سینئر جج کو عدالت کا سربراہ بنایا گیا تھا‘۔

اس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے دریافت کیا کہ ’جوڈیشل کونسل یا آرٹیکل 6 کے تحت بننے والی سپیشل کورٹ کے ججز مخصوص مدت کے لیے ہوتے ہیں لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 200 کے تحت جج کا تبادلہ مستقل ہے یا عارضی ہوگا؟‘، ایڈووکیٹ جنرل امجد پرویز نے کہا کہ ’ٹرانسفرنگ جج کی معیاد سے متعلق بھی وہ دلائل دیں گے جہاں آئین میں صدر مملکت کو معیاد طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے وہیں یہ اختیار موجود ہوتا ہے‘۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ ’14 ججز کو چھوڑ کر 15ویں نمبر والے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟‘، امجد پرویز نے جواب دیا کہ ’یہ سمری عام آدمی نے نہیں بلکہ ججز نے تیار کی اور ججز آئین و قانون سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں جہاں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو اضافی جج کی ضرورت ہو وہاں مدت کا ذکر ہوتا ہے لیکن ٹرانسفر کی صورت میں تبادلہ مستقل ہی ہوتا ہے‘۔

دوران سماعت جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ ’ٹرانسفر کے عمل میں سمری میں کہیں بھی ’پبلک انٹرسٹ‘ کا ذکر موجود نہیں‘، جس پر امجد پرویز نے کہا کہ ’آرٹیکل 200 میں بھی ’پبلک انٹرسٹ‘ کا لفظ شامل نہیں ہے‘، بعد ازاں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے پر عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل کا آغاز کیا، تاہم عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات