اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جون 2025ء) امریکہ کی جانب سے ایران میں تین اہم جوہری تنصیبات پر حملوں کے چند گھنٹے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار ہی کے روز ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے بات چیت کی اور اس دوران ''فوری طور پر کشیدگی میں کمی‘‘ پر زور دیا۔ بھارت ایران کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اور امریکی حملوں کے بعد نئی دہلی کی جانب سے یہ پہلا تبصرہ تھا۔
بھارت اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کرے، اپوزیشن کا مطالبہ
دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کیونکہ یہ ویانا میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی ایک ہنگامی میٹنگ سے پہلے ہوئی ہے، جہاں ایران پر امریکی حملے مرکزی موضوع ہوں گے۔
(جاری ہے)
بھارتی وزیر اعظم مودی نے صدر پزشکیان سے بات چیت کے بعد ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ''ہم نے موجودہ صورت حال کے بارے میں تفصیل سے بات کی، حالیہ کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
آگے بڑھنے اور علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کی جلد بحالی کے لیے فوری طور پر کشیدگی میں کمی، مکالمت اور سفارت کاری کے لیے اپنے مطالبات کا اعادہ کیا۔‘‘غزہ کی جنگ کے باوجود بھارت کو اسرائیلی فوجی برآمدات جاری
بھارتی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا کہ وزیر اعظم مودی نے ایران سے بھارتی شہریوں کی ''محفوظ وطن واپسی‘‘ کو یقینی بنانے میں بھارت کی مدد کرنے پر ڈاکٹر پزشکیان کا شکریہ ادا کیا۔
تیرہ جون کو مغربی ایشیا کے تنازع میں شدت آنے کے بعد سے نئی دہلی اور تہران ایران میں بھارتی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔
بھارت ایران اور اسرائیل دونوں کے ساتھ رابطے میں
مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں تازہ ترین ہیش رفت کے تناظر میں یہ مودی اور پزشکیان کے درمیان پہلی فون کال تھی۔ بھارت تہران اور اسرائیل دونوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ تہران کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟
پچھلے دس دنوں کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے اور اسرائیل کے وزیر خارجہ گیدون سعار نے بھی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے بات کی ہے۔
اس سے قبل ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے بھی جے شنکر سے بات کی تھی، جو کہ تہران کی طرف سے اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔
بھارتی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر پزشکیان نے وزیر اعظم مودی کو صورت حال کے متعلق ''تفصیل سے‘‘ آگاہ کیا اور ''خطے کی موجودہ صورت حال، خاص طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعے پر اپنا نقطہ نظر شیئر کیا۔‘‘
بھارت ہزاروں مزدوروں کو اسرائیل کیوں بھیج رہا ہے؟
خیال رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں روس کے شہر کازان میں 16ویں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر مودی نے پزشکیان سے ملاقات کی تھی۔
بھارت کی پریشانیاں؟
ایران اسرائیل تنازعے میں بھارت خود کو ایک مشکل مقام پر پاتا ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے ساتھ اس کے اہم اسٹریٹیجک اور دفاعی سمیت متعدد نوعیتوں کے تعلقات ہیں۔
بھارت اور ایران کے مابین متعدد دوطرفہ اور کثیر الجہتی امور پر قریبی رابطے ہیں۔ نئی دہلی نے بھارت اور ایران کے درمیان 20 ویں مشترکہ کمیشن کی میٹنگ کے لیے مئی میں ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کی میزبانی کی تھی۔
نئی دہلی میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ایران میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، جہاں امریکہ نے فردو، نطنز اور اصفہان میں جوہری تنصیبات پر حملے کیے ہیں۔
چابہار بندرگاہ: بھارت اور ایران میں معاہدہ، امریکہ کی تنبیہ
بھارت اور ایران چابہار بندرگاہ کے منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں، اور دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان سے متعلق قدرے یکساں تحفظات رکھتے ہیں۔
ان دونوں ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں نئی دہلی اور تہران کے مشترکہ خدشات بھی انہیں قریب لے آئے ہیں۔ انہوں نے انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور پر بھی ایک ساتھ کام کیا ہے۔ایران اور بھارت نے شنگھائی تعاون کی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں بھی ایک ساتھ کام کیا ہے اور دونوں فریق اکثر چین اور روس کے بارے میں سفارتی مکتوب کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت ایران اور اسرائیل دونوں ہی کے ساتھ اپنے تعلقات رکھنا چاہتا ہے اس لیے اسے ہر قدم بہت احتیاط سے اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ادارت: مقبول ملک