اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جون 2025ء) جون 2024 سے جنوری 2025 کے دوران سات لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے اب پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ متضاد فیصلہ حکومتی پالیسیوں میں سنجیدگی اور تحقیق کی کمی کو عیاں کرتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ رانا تنویر حسین کی زیر صدارت شوگر ایڈوائزری بورڈ نے پیر کو پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔
ماہرین کے مطابق پالیسیوں میں ایسی تیزی سے تبدیلیاں حیران کن ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق ہر دور کی حکومتیں پہلے چینی یا خام چینی برآمد کرنے کی اجازت دیتی ہیں اور پھر اس کی درآمد کی منظوری دے دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ناقص منصوبہ بندی اور ملک میں چینی کے استعمال سے متعلق تحقیق کی کمی ہے۔
(جاری ہے)
جامع منصوبہ بندی کی ضرورت
کسانوں کے ایک نمائندے عامر حیات بندارا نے کہا کہ چینی کی برآمد کے بعد درآمد کی ضرورت نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے زرعی اور تجارتی شعبوں میں ڈیٹا پر مبنی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''برآمد کا فیصلہ وقتی اضافی پیداوار اور زرمبادلہ کمانے کے لیے کیا جاتا ہے لیکن یہ فیصلے مقامی ضروریات کے درست اندازے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے چاہئیں۔ درآمد کا مقصد قیمتوں میں استحکام اور صارفین کو ریلیف دینا ہونا چاہیے۔‘‘
انہوں نے ایک ایسی طویل المدتی اور شفاف پالیسی کی ضرورت پر زور دیا، جو کاشتکاروں، صنعتکاروں اور وزارت خوراک کی مشاورت سے تیار کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا، ''اسے تنقید کی نظر سے دیکھنے کے بجائے، یہ موقع ہے کہ پالیسی ساز، صنعت کے ماہرین اور ادارے مل کر شفاف شوگر پالیسی اور غذائی تحفظ کی پالیسی بنائیں۔ بہتر منصوبہ بندی، اسٹاک کا بروقت اندازہ اور وفاقی و صوبائی سطح پر رابطہ ایسی صورتحال سے بچا سکتا ہے جبکہ اس طرح کاشت کار اور صارفین بھی محفوظ رہیں گے۔‘‘پاکستان اپنی زرعی ضروریات پوری کر سکتا ہے؟
مختلف ممالک میں مختلف اشیاء کی درآمدات و برآمدات کا ڈیٹا جمع کرنے والے ادارے اکنامک آبزرویٹری کمپلیکسٹی کے مطابق سن 2023 میں پاکستان نے 137 ملین ڈالر کی خام چینی برآمد کی اور اسی سال 74.8 ملین ڈالر کی خام چینی درآمد کی۔
سن 2022 میں 6.35 ملین ڈالر کی خام چینی برآمد کی گئی، جو زیادہ تر ازبکستان، چین، اور قازقستان کو بھیجی گئی، جبکہ 240 ملین ڈالر کی خام چینی درآمد کی گئی، جس میں بھارت، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا شامل تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود چینی درآمد کر رہا ہے، حالانکہ اس میں مقامی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
کمزور سرکاری پالیسیاں تمام فصلوں کو متاثر کر رہی ہیں کیونکہ کسانوں کو تحفظ حاصل نہیں۔ کسان رہنما خالد کھوکھر نے کہا کہ موجودہ پالیسیوں کے ساتھ مستقبل میں ہر چیز درآمد کی جائے گی کیونکہ کسان کم قیمتوں اور مہنگے زرعی اخراجات سے متاثر ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت مستقل پالیسیاں نہیں بنا سکتی تو زرعی شعبے، بشمول چینی، کو ڈی ریگولیٹ کر دینا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا، ''متضاد پالیسیاں حکومتی نااہلی کو ظاہر کرتی ہیں۔‘‘
جب وزارت قومی غذائی تحفظ سے ایکسپورٹ اور امپورٹ میں توازن کے بارے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے رائے دینے سے معذرت کر لی۔
ادارت: امتیاز احمد