Live Updates
قومی اسمبلی نے فنانس ڈویژن کے 3551 ارب 6 کروڑ 98 لاکھ کے 14 مطالبات زر کی منظوری دے دی
بدھ 25 جون 2025
14:32
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جون2025ء) قومی اسمبلی نے فنانس ڈویژن کے 3551 ارب 6 کروڑ 98 لاکھ 7 ہزار کے 14 مطالبات زر کی منظوری دے دی اور اپوزیشن کی طرف سے کٹوتی کی 32 تحاریک کثرت رائے سے مسترد کر دیں جبکہ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں کمی لائی گئی ہے، سابق فاٹا اور پاٹا میں انکم ٹیکس کی چھوٹ برقرار ہے، جامع مشاورت کے بعد صرف 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فنانس ڈویژن کے یک بعد دیگرے 14 مطالبات زر ایوان میں پیش کئے جن پر زرتاج گل وزیر، عالیہ کامران، شہرام خان ترکئی اور مبین عارف نے 32 کٹوتی کی تحاریک پیش کیں۔ جن کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ اپوزیشن کی جانب سے قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان، عالیہ کامران، اسد قیصر، اسامہ میلہ، مبین عارف، شہرام خان ترکئی، شاہدہ اختر علی، رائے حسن نواز، شندانہ گلزار اور دیگر نے اپنی اپنی کٹوتی کی تحاریک کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سود سے پاک بینکاری کیلئے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔
(جاری ہے)
فاٹا اور پاٹا میں ٹیکسوں سے نفاذ سے مشکلات بڑھیں گی، ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا دائرہ کار کم ہونے کی بجائے وسیع ہو گا، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح میں اضافہ کا کوئی جواز نہیں تھا، ہائی برڈ گاڑیوں پر ٹیکس نہ لگایا جائے، ایکسپورٹرز پر ٹیکس نہ بڑھایا جائے اس سے معیشت متاثر ہو گی، بیروزگاری بڑھے گی، آئی ٹی سیکٹر پر ٹیکس نہ لگایا جائے، فنی تربیت کا سلیبس صنعتوں کی ڈیمانڈ سے مطابقت نہیں رکھتا، کم سے کم اجرت کا اعلان نہیں کیا گیا، سولر پر 10 فیصد ٹیکس بھی نہیں ہونا چاہئے، خواتین سے متعلقہ پی ایس ڈی پی میں منصوبوں کو ہر صورت مکمل ہونا چاہئے، حکومت کفایت شعاری کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے، ملک پر قرضوں کی شرح کم سے کم کی جائے،غیر ترقیاتی اخراجات کم کئے جائیں، زرعی اجناس کی پیداوار بڑھانی ہیں تو کھادوں، زرعی ٹیوب ویلوں اور کاشتکاروں کو ڈیزل پر سبسڈی دینا ہو گی۔
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے نکات پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ کلی معیشت کے استحکام کی وجہ سے معاشی اشاریئے مثبت ہیں، تجارتی اور مالیاتی خسارہ کم ہوا ہے، پالیسی ریٹ میں کمی آئی ہے جبکہ ایکسچینج ریٹ بھی مستحکم ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جس کی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے بھی توثیق کی ہے۔ 2022ء کے بعد صارفین اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بلند ہے، جاری مالی سال کے اختتام تک جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 10.4 فیصد ہو گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جاری مالی سال کے دوران یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا کہ منی بجٹ آئے گا مگر منی بجٹ نہیں آیا۔ آئندہ مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات میں ماضی کے 10 فیصد اور اس سے زیادہ اضافے کی بجائے محض2فیصد اضافہ ہو گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ قرضوں کے انتظام و انصرام کو بہتر بنایا گیا ہے، پالیسی ریٹ میں کمی کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی کے نظام میں 800 ارب روپے کی بچت کو یقینی بنایا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سبسڈیز میں کمی لائی گئی ہے اور اب وہ دن گئے جب وزیراعظم ہیلی کاپٹر میں دفتر آتے اور جاتے تھے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر کام ہو رہا ہے، اس دوران لوگوں، پراسس اور ٹیکنالوجی پر توجہ دی جا رہی ہے، ایف بی آر میں انسانی مداخلت کو کم سے کم کیا جا رہا ہے تاکہ کاروبار میں آسانی ہو، علاوہ ازیں ایف بی آر کے عمل کو بھی آسان بنایا جا رہا ہے۔
سابق فاٹا اور پاٹا میں سیلز ٹیکس کے نفاذ کے حوالے سے اراکین کے تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق فاٹا میں یہ عمل پہلے سے چل رہا تھا 10 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ تمام متعلقہ فریقوں جس میں سرحد چیمبر بھی شامل ہے کی مشاورت سے لگا ہے، سابق فاٹا اور پاٹا کو انکم ٹیکس میں اب بھی مکمل چھوٹ دی گئی ہے اس حوالے سے جامع مشاورت کا عمل جاری ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کو پورے ملک کے تناظر میں مرتب کیا جاتا ہے، رواں سال وفاقی پی ایس ڈی پی کا حجم دس کھرب روپے اور صوبوں کا 30 کھرب روپے ہے، مجموعی طور پر40 کھرب روپے کا ترقیاتی پروگرام ہے، صوبوں کو چاہئے کہ وہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کو ترجیحی بنیادوں پر مرتب کرے اور ان شعبوں کیلئے زیادہ فنڈز مختص کرے جو وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں۔ سپیکر نے ایوان میں کٹوتی کی تحاریک منظوری کیلئے پیش کیں جنہیں ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کر دیا اور فنانس ڈویژن کے 14 مطالبات زر کی منظوری دیدی۔
بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات