Live Updates

غزہ میں امدادی مراکز پر اسرائیلی حملوں سے دو ماہ کے دوران 583 فلسطینی شہید ، 4186 زخمی ہوئے ، رپورٹ

پیر 30 جون 2025 11:10

غزہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جون2025ء) اسرائیل کی مسلح افواج نے دو ماہ کے دوران غزہ میں امدادی مراکز میں جمع فلسطینیوں پر حملوں میں کم از کم 583 افراد کو شہید اور 4,186 کو زخمی کیا ہے جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ الجزیرہ نے غزہ کی وزارت صحت کے حوالے سے بتایا کہ 27 مئی سے اسرائیل اور امریکا کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن ( جی ایچ ایف) کے زیر انتظام امداد کی تقسیم کے مراکز پرغذائی امداد حاصل کرنے کے انتظار میں جمع ہونے والے فلسطینیو ں میں سے کم از کم 583 فلسطینی اسرائیلی حملوں میں مارے گئے اور 4,186 زخمی ہو ئے ۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کی طرف سے امدادی مراکز پر جمع ہونے والے غزہ کے مکینوں پر حملے روزانہ کی بنیا د پر ہو رہے ہیں اور بین الاقوامی تنظیموں نے خبر دار کیا ہے کہ غزہ کے 21 لاکھ مکینوں کو بازاروں کے خالی ہونے، صاف پانی کی کمی اور امداد کی ترسیل خطرناک ہونے کے باعث تباہ کن غذائی قلت کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیل اور امریکا کی حمایت یافتہ امدادی تنظیم جی ایچ ایف کی امدادی کارروائیوں شروع ہونے کے بعد پہلے آٹھ دنوں میں تنظیم کے مراکز پر جمع ہونے والےافراد پر اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے 100 سے زائد افراد مارے گئے۔

یہ تنظیم غزہ میں خوراک کا واحد ذریعہ ہے کیونکہ اسرائیل دوسرے گروپوں کے ذریعہ سامان کی فراہمی پر سخت پابندیاں لگا رہا ہے۔اس صورتحال میں جب غزہ میں غذائی اشیا کی سخت قلت ہے ،بھوک کے ہاتھو مجبور ہونے کے باوجو د بہت سے لوگ جی ایچ ایف کے مراکز سے دور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہاں امداد کے متلاشیوں پر جاری اور جان بوجھ کر فائرنگ کی وجہ سے ان کے جانے میں خطرہ ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کھانا نہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ بچے بھوکے سونے جا رہے ہیں یا وہ بھوک سے بھی مر سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے زیرقیادت سابقہ ​​ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کے زیر انتظام غزہ میں تقریباً 400 مراکز پر غذائی امداد تقسیم کی جاتی تھی لیکن امریکی کمپنی کے لیے کام کرنے والے مسلح نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز کے زیر نگرانی جی ایچ ایف نے صرف چار مراکز قائم کئے ہیں جن میں سے تین جنوب میں اور ایک وسطی غزہ میں ہے اور شمالی غزہ میں کوئی امدادی مرکز نہیں جہاں حالات انتہائی سنگین ہیں ۔

یہ مراکز بے قاعدگی سے کام کرتے ہیں اور کبھی کبھی صرف ایک گھنٹے کے لئے کھلتے ہیں اور بعض اوقات صرف چند منٹ کے لئے کھلتےہیں جبکہ ان تک رسائی بھی خطرناک ہے۔ فلسطینیوں کو بعض اوقات فعال جنگی علاقوں سے کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے، بائیو میٹرک چوکیوں پر جانا پڑتا ہے اور بھاری سامان اپنے اہل خانہ کے پاس لے جانا پڑتا ہے۔اس نظام میں بوڑھوں ، زخمیوں اور معذوروں جیسے سب سے زیادہ کمزور افراد کو شامل نہیں کیا گیا ۔

ان مراکز میں ڈبوں میں بند خوراک فراہم کی جاتی ہے جو بمشکل انسانی غذائی ضروریات پوری کرتی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے 2,100 کیلوریز فی شخص فی دن غذائی امداد تجویز کر رکھی ہے لیکن اسرائیلی حکام نے امداد کی حدکم کر کے 1,600 کیلیوریز کردی ہے مزید یہ کہ اس امداد میں پانی، دوائی، کمبل یا ایندھن نہیں ہوتا ۔ اسرائیلی اخبارہارٹز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کو کہا گیا کہ وہ فلسطینیوں کے ایسے ہجوم پر گولیاں برسائیں اوران کے خلاف غیر ضروری مہلک طاقت کا استعمال کریں جن سے بظاہر کوئی خطرہ نہیں ۔

اسرائیلی فوجیوں نے بتایا کہ انہوں نے نہتے فلسطینیوں پر ٹینکوں پر نصب مشین گنوں سے فائرنگ کی اور ان پر ہنڈ گرینیڈ بھی پھینکے۔غذائی امداد کے مراکز پر جمع فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں میں مارے جانے والوں میں نصف سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے ۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق غزہ کی آبادی کا 93 فیصد کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہےاور اسرائیلی ناکہ بندی کے نتیجے میں ممکنہ طور پر غزہ میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا امکان ہے کیونکہ لوگوں کی بقا کے لئےدرکار ضروری اشیا ختم ہو رہی ہیں۔\932
Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات