کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2025ء)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر جاوید بلوانی اور چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا نے سیلز ٹیکس ایکٹ کے نئے سیکشن 37 اے اور 37 بی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے فوری طور پر ان ظالمانہ سیکشن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان دونوں سیکشن کے تحت ایف بی آر افسران کو گرفتاری کے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں جو ایک آمرانہ اقدام ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے غیر معقول اختیارات نہ صرف پاکستان کے بزنس فرینڈلی امیج کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی سرمایہ کاری سے روکتے ہیں۔ جمعرات کوکے سی سی آئی آڈیٹوریم میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر کے سی سی آئی اور چیئرمین بی ایم جی نے بزنس اناملیز کمیٹی کے حالیہ ہونے والے اجلاس میں حکومت کی عدم توجہ پر بھی سخت تنقید کی۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث کراچی چیمبر نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مہم کا آغاز کیا جو کراچی بھر میں بینرز آویزاں کرنے سے شروع ہوئی اور آج کی اس پُرہجوم پریس کانفرنس کی صورت میں مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس موقع پر بی ایم جی کے وائس چیئرمین انجم نثار، میاں ابرار احمد، سینیئر نائب صدر ضیاء العارفین، نائب صدر فیصل خلیل احمد، ساتوں انڈسٹریل ٹائوں ایسوسی ایشنز کے صدور، سابق صدور کے سی سی آئی، ممتاز کاروباری شخصیات، کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین اور بڑی تعداد میں تاجر و صنعتکار بھی موجود تھے۔
صدر کے سی سی آئی جاوید بلوانی نے کہا کہ ملک کے متعدد چیمبرز آف کامرس بھی اس اہم مسئلے پر پہلے ہی پریس کانفرنس کر چکے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ سیکشن 37 اے پاکستان میں کاروبار کرنے کے لیے بالکل بھی سازگار نہیں ہے۔ پوری تاجر برادری اس قانون کی سخت مخالف ہے اور اس کے خاتمے کا پُرزور مطالبہ کر رہی ہے اور کراچی چیمبر ان سب کے مؤقف سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کے سی سی آئی کو ان سیکشنز کے حوالے سے بے شمار شکایات اور تشویش موصول ہو رہی ہیں جہاں کاروباری مالکان بار بار یہ سوال کر رہے ہیں کہ سیکشن 37 اے کے مستقل خطرے میں ہم کیسے کام جاری رکھ سکتے ہیں جو ہماری عزت پر تلوار کی طرح منڈلا رہا ہی صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ یہ قانون ناجائز طریقوں سے نمٹنے کے بجائے قانون کی پیروی کرنے والے ٹیکس دہندگان کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بناتا ہے جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں بجائے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے جو جعلسازی جیسے جعلی یا فلائنگ انوائسز جاری کرنے میں ملوث ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کہ پاکستان کی معیشت کا صرف 40 فیصد حصہ دستاویزی ہے جبکہ60 فیصد غیر رسمی ہے۔40 فیصد دستاویزی میں سے بمشکل 2 فیصد اس طرح کے غلط کاموں میں ملوث ہو سکتے ہیں جبکہ 98 فیصد رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان مکمل طور پر ٹیکس کی پاسداری کرتے ہیں پھر بھی چند مجرموں پر توجہ دینے کے بجائے تمام ٹیکس دہندگان کو متنازع سیکشن 37 اے اور 37 بی کے تحت ہراساں کیا جائے گا۔
جاوید بلوانی نے ایف بی آر کی ناکامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر نے جب بھی ٹیکس دہندگان کے خلاف مقدمات دائر کیے، زیادہ تر عدالتی فیصلے ٹیکس دہندگان کے حق میں آئے جبکہ صرف چند ایک فیصلے ایف بی آر کے ٹیکس کلیکٹرز کے حق میں آئے۔یہ ستم ظریفی ہے کہ جن ایف بی آر افسران کو زیادہ تر مقدمات میں کوئی ثبوت نہیں ملا انہیں اب سیکشن 37 اے اور 37 بی کے تحت بے پناہ اختیارات دے دیے گئے ہیں۔
ا نہوں نے سوال کیا کہ ایسے ماحول میں ایک ایماندار ٹیکس گزار انصاف کے لیے کہاں جائی جاوید بلوانی نے حکومت کی جانب سے بزنس اناملیز کمیٹی کے طے شدہ مشاورتی عمل کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر بزنس اناملیز کمیٹی کا اجلاس فنانس بل منظور ہونے سے پہلے منعقد ہوتا ہے۔ایک بار کمیٹی تشکیل پانے کے بعد فوری طور پر اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں جس میں اراکین اپنی تشویش اور تجاویز پیش کرتے ہیں۔
ان تجاویز کا اکثریتی رائے سے جائزہ لیا جاتا ہے اور بعد ازاں ممبر ان لینڈ ریونیو (پالیسی) اور ممبر کسٹمز (پالیسی) کے ساتھ اجلاس ہوتے ہیں اور ایک شفاف اور نظرثانی شدہ دستاویز چیئرمین ایف بی آر کو ارسال کیا جاتا ہے۔چیئرمین ایف بی آر کی منظوری کے بعد اناملیز کمیٹی کا آخری اجلاس طلب کیا جاتا ہے جس میں وزیر خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور دیگر سینئر ایف بی آر حکام بھی شریک ہوتے ہیں۔
اس اجلاس میں دستاویز کو آخری شکل دی جاتی ہے اور وہ تمام سفارشات منظور کی جاتی ہیں جو کمیٹی اراکین نے ایف بی آر حکام سے مشاورت کے بعد طے کی ہوتی ہیں اور پھر ان سفارشات کو فنانس بل میں حتمی طور پر شامل کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس سال پہلی بار طے شدہ طریقہ کار کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ کوئی مناسب مشاورت نہیں کی گئی جس کے باعث بزنس اناملیز کمیٹی کے ارکان کو استعفیٰ دینے اور احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے باوجود بجٹ کو عجلت میں منظور کر لیا گیا جس میں تاجر برادری کی رائے شامل نہیں تھی۔ یہ بات نہایت تشویشناک ہے کہ وہ اناملیز جن کی نشاندہی نہ صرف کمیٹی نے بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں نے بھی کی تھی ان میں اکثریت کو نظرانداز کر دیا گیا حالانکہ ان پر غور و خوض کے بعد اتفاقِ رائے بھی ہو چکا تھا۔صدر کے سی سی آئی نے وزیر اعظم سے اپیل کی کہ وہ سیکشن 37 اے اور 37 بی کو فوری طور پر ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام چیمبرز کے صدر اور ایف بی آر افسران پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دیں جس کا فوری اجلاس بلایا جائے تاکہ کراچی چیمبر سمیت دیگر چیمبرز اور دیگر ٹریڈ ایسوسی ایشنز کی طرف سے نشاندہی کی گئی 30 سے ذائداناملیز پر غور کیا جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ کے سی سی آئی کی نشاندہی کردہ 30 اناملیز میں 5 سے 6 انتہائی سنگین نوعیت کی ہیں جو ٹیکس دہندگان کے لیے ریٹرن فائل کرنے کو ناممکن بنا دیں گی۔ ان مسائل کو فوری طور پر ترامیم کے ذریعے درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریٹرن جمع کرانے کو قابل عمل بنایا جاسکے۔اس موقع پر چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے کہا کہ اس کالے قانون کے خاتمے کا مطالبہ اس لیے بھی زور پکڑ چکا ہے کیونکہ چیک اینڈ بیلنس کے بغیرگرفتاری کے وسیع اختیارات صرف ہراساں کرنے کا باعث بنیں گے۔
اس کے نتیجے میں کرپشن کے دروازے کھل جائیں گے کیونکہ یہ قوی امکان ہے کہ گرفتاری کے اختیارات رکھنے والے افسران انہیں ذاتی مفادات کے لیے استعمال کریں گے۔ ایسی صورتحال میں قانون کی پاسداری کرنے والے ٹیکس دہندگان صرف اپنی عزت بچانے کے لیے غیر قانونی مطالبے تسلیم کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔زبیر موتی والانے کہا کہ سیکشن 37 اے کے تحت کوئی ایک بھی کارروائی پوری تاجر برادری میں ہلچل مچا دے گی۔
اس سے نہ صرف موجودہ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی بلکہ جاری توسیعی منصوبے بھی رک جائیں گے۔انہوں نے بعض سرمایہ کاروں کے خدشات کے بارے میں خبردار کیا جنہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر سیکشن 37 اے برقرار رہا تو وہ پاکستان کی معیشت کے کسی بھی شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔چیئرمین بی ایم جی نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو پہلے سے ہی دستاویزی معیشت کا حصہ بننے والوں کو ہراساں کرنے کے بجائے ٹیکس نظام کا حصہ نہ بننے والوں سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین تیار کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکومت کے لیے فیصلہ کن لمحہ ہے۔ اسے فوری اور مخلصانہ اقدامات کرتے ہوئے تاجر برادری میں پائی جانے والی بے چینی اور مایوسی کو سمجھنا چاہیے۔صدر لاہور چیمبر ابوذر شاد اور صدر فیصل آباد چیمبر ریحان نسیم بھرارا نے بھی بذریعہ زوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔