جماعت اسلامی کے 9ٹائون چیئر مینوںنے غیر قانونی لوڈشیڈنگ کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرادی

لائین لاسز کی بنیاد پر لوڈشیڈنگ غیر قانونی قرا ر اور نیپرا کو کے الیکٹرک کے خلاف ایکشن لینے کاحکم دیا جائے ، پٹیشن میں استدعا علیٰ عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ آئین کے تحت بجلی عوام کا بنیادی حق ہے مگر کے الیکٹرک آئینی ، قانونی کوئی بھی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں

جمعرات 3 جولائی 2025 21:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2025ء)جماعت اسلامی کے 9ٹائون چیئر مینوں نے کے الیکٹرک کی جانب سے شہر میں غیر قانونی اور بدترین لوڈشیڈنگ کے خلاف آئینی درخواست ہائی کورٹ میں دائر کر دی ،درخواست میں وفاقی حکومت ، کے الیکٹرک اور نیپرا کو فریق بنا یا گیا ہے، پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ کراچی کے کثیر علاقوں میں کے الیکٹرک کی جانب سے غیر انسانی طرزِ عمل اور غیر قانونی لوڈشیڈنگ کو خلاف ِ آئین قرار دیا جائے اور نیپرا کو کے الیکٹرک کے خلاف ایکشن لینے کا حکم دیا جائے ، درخواست میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو آئین کے تحت شہریوں کو بجلی کی فراہمی اور پیداوار کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے جبکہ نیپرا اس معاملے میں ریگو لیٹری اتھارٹی مقرر کی گئی ہے ، کے الیکٹرک ایک پرائیویٹ کمپنی ہے جس نے بجلی کی پیداوار و تقسیم اور عوام کو ترسیل کا لائسنس لیا ہوا ہے ، آئینی درخواست میں کہا گیا ہے کہ نیپرا پہلے ہی یہ قرار دے چکی ہے کہ کے الیکٹرک کی جانب سے لوڈشیڈنگ خلاف ِ قانون ہے ، اس بارے میں نیپرا کو بہت سی درخواستیں دی گئیں تھیں کہ کے الیکٹرک کراچی کے مختلف علاقوں میں لائین لاسز کے تناسب سے لوڈشیڈنگ کر رہی ہے جس سے وہ صارفین بھی متاثر ہو رہے ہیں جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں ، چنانچہ نیپرا نے 2-4-24کے فیصلے میں کے الیکٹرک کے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ کے الیکٹرک کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی وقفہ اور رکاوٹ کے بغیر تسلسل کے ساتھ اور قابل اعتماد مشینری کے ذریعے بجلی کی فراہمی یقینی بنائے ، آئینی درخواست میں کہا گیا ہے کہ کراچی میںشدید گرمی کا موسم ہے اور اس وقت اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ بجلی کی فراہمی معطل نہ ہو ، اعلیٰ عدالتیں یہ قرار دے چکی ہیں کہ آئین کے تحت بجلی عوام کا بنیادی حق ہے مگر کے الیکٹرک آئینی ، قانونی اور کسی بھی معاملے کی پابندی کرنے کو تیار نہیں ، واضح رہے کہ اس سے قبل امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی جانب سے بھی ایک آئینی درخواست داخل کی گئی تھی جس کی سماعت زیر ِ التواء ہے ۔