یزید کی حکومت کا قیام اسلامی اقدار کے خلاف ایک واضح انحراف تھا،مولاناعبدالقدوس احمدانی

امام حسین نے یزید کی بیعت سے انکار فرما کر اعلان کیا کہ خلافت کا معیار کردار، علم، عدل اور تقوی ہے، نہ کہ نسب یا طاقت،شہادت حسین ؓکانفرنس سے خطاب

ہفتہ 5 جولائی 2025 17:45

ٹنڈوآدم(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 جولائی2025ء)جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری و نامور عالم دین مولانا عبدالقدوس احمدانی نے کہا ہے کہ آج ہم ایک ایسے عظیم اور دل دہلا دینے والے واقعے کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں، جس نے تاریخِ اسلام کو غم و اندوہ کے خونچکاں باب سے آشنا کیا۔ وہ واقعہ جو نہ صرف اہلِ بیتِ رسول ﷺ کی عظمت، صبر اور قربانی کا مظہر ہے، بلکہ حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر بھی کھینچتا ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکز جماعتِ اسلامی ٹنڈوآدم میں شہادت حسین رضہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر مقامی امیر سید عریف اللہ سیفی ، نائب امرا مشتاق احمد عادل ، عبدالغفور انصاری اور مقامی جنرل سیکریٹری عبدالستار انصاری نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر اسٹیج پر جامعہ اسلامیہ مدینتہ العلوم ٹنڈوآدم کے مہتمم حافظ سلیم الدین انصاری ، حاجی نور حسن بھی موجود تھے .مولانا عبدالقدوس احمدانی نے کہا کہ حضرت امام حسین، نواسہ رسول ﷺ، جگر گوشہ فاطمہ الزہرا، اور علی المرتضی کے لختِ جگر، وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:"حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔

" انہوں نے کہا کہ یزید کی حکومت کا قیام اسلامی اقدار کے خلاف ایک واضح انحراف تھا۔ امام حسین نے یزید کی بیعت سے انکار فرما کر اعلان کیا کہ خلافت کا معیار کردار، علم، عدل اور تقوی ہے، نہ کہ نسب یا طاقت۔امام حسین کو اہلِ کوفہ کی جانب سے خطوط موصول ہوئے کہ "آئیے، ہم آپ کی بیعت کریں گے، اور آپ کو خلیفہ بنائیں گے۔" امام نے حضرت مسلم بن عقیل کو پہلے بھیجا، جنہیں کوفہ میں شہید کر دیا گیا۔

امام حسین نے حق کی آواز بلند کرنے اور ظلم کے خلاف قیام کا عزم لے کر مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کوفہ کا سفر اختیار فرمایا۔بالآخر 2 محرم الحرام 61 ہجری کو امام حسین اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں کے ساتھ کربلا کے میدان میں پہنچے۔ یہاں وہ دشمن کی فوج کے محاصرے میں آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس معرکہ حق و باطل میں یزیدی لشکر نے پانی بند کر دیا، تین دن کے پیاسے بچے، بوڑھے، عورتیں اور مرد بھوکے پیاسے ظلم سہتے رہے۔

مگر امام حسین نے نہ بیعت کی، نہ سر جھکایا۔10 محرم الحرام، عاشورہ کا دن آیا، امام حسین نے اپنے خانوادے کے تمام جوانوں کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا۔ آخرکار، خود بھی میدان میں اترے اور شہادت کا جام نوش فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسین نے فرمایا کہ "میں خروج اس لیے کر رہا ہوں کہ میری امت کی اصلاح ہو، اور میں اپنے نانا محمد ﷺ کی سنت کو زندہ کروں۔

"یہ صرف ایک جنگ نہ تھی بلکہ حق و باطل کی آخری حد تھی۔ امام حسین نے سر کٹوا دیا مگر ظلم کے آگے سر نہ جھکایا مولانا عبدالقدوس احمدانی نے کہا کہ آج قبلہ اول اور مسجد اقصی کی حفاظت کا جو معرکہ جاری ہے وہ ہ بھی اہل کربلا کے مشن کی تکمیل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ واقعی کربلا سیہمیں یہی درس ملتا ہے کہ ہم کسی ظالم اور جابر کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوں حق کا پرچم بلند کریں چاہے اس راستے میں ہمیں کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔