جنوبی ایشیا کو خطرناک اسٹریٹجک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے، جنرل (ر) زبیر محمود حیات کا انتباہ

جمعہ 11 جولائی 2025 19:03

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جولائی2025ء) سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل (ر) زبیر محمود حیات نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا اس وقت سلامتی اور استحکام کے شدید بحران سے دوچار ہے، جہاں نہ صرف سرحدیں غیر محفوظ ہیں بلکہ سائبر سیکیورٹی جیسے جدید خطرات کے خلاف بھی کوئی مو ثر دفاعی نظام موجود نہیں۔ایک بین الاقوامی فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا آج سلامتی کا متلاشی ہے، استحکام اور امن بعد کی بات ہے۔

انہوں نے اس امر پر تشویش ظاہر کی کہ خطے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی قسم کا کرائسز مینجمنٹ سسٹم موجود نہیں، نہ ہی سیاسی، ثقافتی، معاشی یا کھیلوں کے شعبے میں کوئی تبادلہ ہوتا ہے، جو خطے میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دے سکتا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے اختیار کردہ دووال ڈاکٹرائن اب مودی ڈاکٹرائن کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور جارحانہ ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حملوں کے پیچھے بھارتی حکمتِ عملی کارفرما ہے، اور بھارتی فوج کی سیفرونائزیشن‘ جنوبی ایشیا میں ایک نیا سیکیورٹی بحران جنم دے رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈومز ڈے کلاک جو دنیا کے خاتمے کے امکانات کی نشاندہی کرتا ہے، جنوبی ایشیا کے لیے 2025 میں صرف 30 سیکنڈ پر آ چکی ہے، جو خطرے کی شدید گھنٹی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی قیادت کی جانب سے تین محاذوں پر جنگ جیسے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ نئی دہلی میں اسٹریٹجک تدبر کے بجائے اسٹریٹجک مغالطے کارفرما ہیں۔ جنرل زبیر نے بھارت کی تین بڑی اسٹریٹجک غلطیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا1998 میں ایٹمی دھماکے،2019 میں کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ،اور 2025 میں پہلگام واقعے کے بعد مودی حکومت کی نئی جارحانہ پالیسی بھارت کی بہت بڑی غلطیاں تھیں ۔

انہوں نے زور دیا کہ کشمیر کو دبایا نہیں جا سکتا، اور اب پانی کا مسئلہ بھی نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بنتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کو ری سیٹ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ری سیٹ جو خودمختاری، اعتماد، اور علاقائی ہم آہنگی پر مبنی ہو۔ انہوں نے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے اسٹریٹجک گٹھ جوڑ پر بھی تشویش ظاہر کی اور خطے میں پائیدار امن کے لیے جامع مکالمے اور اعتماد سازی کو ناگزیر قرار دیا۔