بھارت کی آبی جارحیت، سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن گئی ن

ہفتہ 12 جولائی 2025 20:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 جولائی2025ء)بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی اطلاعات نے خطے میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ پاکستان نے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کی بندش کو کسی بھی طور پر دوستانہ عمل تصور نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ پاکستان کے خلاف ایک خاموش جنگ کے مترادف ہوگا۔

عالمی اداروں، خاص طور پر ورلڈ بینک اور عالمی ثالثی عدالت نے واضح کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے جیسا بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے دونوں فریقین کی باہمی منظوری ضروری ہے۔پاکستانی حکام نے واضح کر دیا ہے کہ بھارت کی جانب سے کسی بھی قسم کی آبی جارحیت کا بروقت اور فیصلہ کن ردعمل دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کی تو اسے خطے میں خوراک، زراعت اور معاشی استحکام کے بدترین بحران کی شکل میں نتائج بھگتنا ہوں گے۔

ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل نہیں ہو سکتا، باہمی منظوری لازمی ہے۔ پانی کی بندش پاکستان کے خلاف جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔ عالمی بنک کا کہنا ہے کہ بھارت کا یہ اقدام عالمی قوانین اور ضابطوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ دریاؤں کا مکمل پانی روکنا بھارت کے لیے عملی طور پر مشکل اور مہنگا عمل ہے۔

کیا بھارت فالس فلیگ حملوں کی آڑ لے کر معاہدہ ختم کرنا چاہتا ہی معاہدے کی غیر فعالی خطے میں شدید ماحولیاتی، معاشی اور سیاسی بحران کا پیش خیمہ بن سکتی ہے عالمی ثالثی عدالت کا کہنا ہے کہ جغرافیائی حقائق بھارت کے مکمل اختیار کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ پاکستان نے عالمی برادری سے مؤثر اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ نہ صرف ایک آبی معاہدہ ہے بلکہ جنوبی ایشیاء میں امن کا ستون بھی ہے۔

اگر بھارت اس ستون کو گرانے کی کوشش کرے گا تو اس کے اثرات صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ یہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے سفارتی، قانونی اور تکنیکی سطح پر ہر ممکن اقدام کے لیے تیاریاں مکمل کی جا رہی ہیں تاکہ قومی سلامتی اور آبی خودمختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔