پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے چئیرمین عبدالباسط نے چوزہ پر 10روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے نفا ذ کو ایک غیر منسفانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کر دیا

پیر 14 جولائی 2025 22:18

پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے چئیرمین عبدالباسط نے چوزہ پر 10روپے فیڈرل ..
لاہو ر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جولائی2025ء) پاکستان پولٹری ایسو سی ایشن کے چئیر مین عبدالباسط نے چوزہ پر 10روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے نفا ذ کو ایک غیر منسفانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پولٹری صنعت ملک کی غذائی تحفظ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جو کروڑوں افراد کو پروٹین کا سستا اور قابل رسائی ذریعہ فراہم کرتی ہے۔

تاہم، وفاقی حکومت کی جانب سے ایک دن کے چوزے پر 10 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز نے صنعت اور صارفین دونوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف پولٹری کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا بلکہ غذائی قلت اور معاشی عدم استحکام جیسے مسائل کو بھی جنم دے سکتا ہے۔

(جاری ہے)

حکومت کا چوزہ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا نفاذ ایک غیر روایتی عمل ہے۔

فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عام طور پر پرتعیش اشیاء، مضر صحت مصنوعات (جیسے سگریٹ اور مشروبات)، یا ایسی اشیاء پر عائد کی جاتی ہے جن کا استعمال کم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد حکومتی ریونیو میں اضافہ کرنا یا مخصوص مصنوعات کی کھپت کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ تاہم، ایک دن کے چوزے پر ایکسائز ڈیوٹی کا اطلاق انتہائی غیر روایتی اور حیران کن ہے۔

چوزے کو کسی بھی صورت میں پرتعیش شے یا مضر صحت قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ یہ پولٹری کی پیداوار کا بنیادی جزو ہے اور براہ راست غذائی تحفظ سے منسلک ہے۔ ایک دن کے چوزے پر 10 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے سے پولٹری انڈسٹری کو کئی محاذوں پر نقصان پہنچے گا۔ چوزے پر ڈیوٹی کے نتیجے میں پولٹری فارمرز کے لیے پیداواری لاگت میں براہ راست اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ اضافی بوجھ بالآخر مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قیمتوں میں منتقل ہوگا۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے پولٹری فارمرز کے لیے یہ اضافی ڈیوٹی برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ بہت سے فارمرز اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں، جس سے صنعت میں اجارہ داری اور مسابقت میں کمی آئے گی۔ بڑھتی ہوئی لاگت اور غیر یقینی صورتحال کے باعث مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار پولٹری سیکٹر میں سرمایہ کاری سے گریز کریں گے، جس سے صنعت کی ترقی متاثر ہوگی۔

اگر مقامی سطح پر پیداواری لاگت بڑھتی ہے تو پاکستانی پولٹری مصنوعات کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت متاثر ہوگی، جس سے برآمدات میں کمی آ سکتی ہے۔ عبدلباسط نے کہا کہ اس ڈیوٹی کا سب سے زیادہ بوجھ بالآخر عام صارفین پر ہی پڑے گا۔ مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قیمتوں میں اضافہ: پیداواری لاگت بڑھنے سے مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قیمتیں لامحالہ بڑھ جائیں گی۔

یہ ان اشیاء کی خریداری کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دے گا، جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا شکار ہے۔ مرغی کا گوشت اور انڈے پاکستان میں پروٹین کے اہم اور سستے ذرائع ہیں۔ ان کی قیمتوں میں اضافے سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے پروٹین کا حصول مشکل ہو جائے گا، جس سے غذائی قلت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر بچوں اور خواتین کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

قیمتیں بڑھنے کے بعد صارفین کو پروٹین کے متبادل ذرائع تلاش کرنے پڑیں گے جو شاید اتنے سستے اور آسانی سے دستیاب نہ ہوں۔ پروٹین کی مناسب مقدار نہ ملنے سے قوت مدافعت کمزور ہو سکتی ہے اور مختلف بیماریوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ایک غذائی شے کے بنیادی جزو پر ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنا حکومتی پالیسیوں پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک غذائی تحفظ کے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے اور مہنگائی عروج پر ہے، ایسے اقدامات اٹھانا جو عام آدمی کی خوراک کو مزید مہنگا کریں، غیر دانشمندانہ معلوم ہوتا ہے۔

حکومت کو ایسے ٹیکس اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو بنیادی ضروریات زندگی کو متاثر کریں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ متبادل ذرائع سے ریونیو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ پولٹری انڈسٹری اور عام صارفین پر بوجھ نہ پڑے۔ صنعت کے اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین کے ساتھ مشاورت کے بعد ایسی پالیسیاں وضع کی جانی چاہئیں جو صنعت کی پائیدار ترقی اور صارفین کی غذائی ضروریات کو پورا کر سکیں۔

ایک دن کے چوزے پر 10 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا نفاذ پولٹری انڈسٹری اور عام صارفین دونوں کے لیے تباہ کن نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف پیداواری لاگت میں اضافے، چھوٹے فارمرز کے کاروبار کی تباہی، اور سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بنے گا بلکہ اس سے مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قیمتیں بڑھنے سے غذائی قلت اور صحت کے مسائل بھی جنم لیں گے۔ حکومت کو اس فیصلے پر فوری نظرثانی کرنی چاہیے اور ایسی پالیسیاں بنانی چاہئیں جو عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی غذائی تحفظ کو یقینی بنائیں۔