- حسا س معلومات کے افشا کا الزام، نیتن یاہو کے مشیر پر فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان
- اسرائیلی اور فلسطینی وزیر برسلز میں، لیکن باہمی ملاقات نہیں ہو گی
حسا س معلومات کے افشا کا الزام، نیتن یاہو کے مشیر پر فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان
اسرائیل کی اٹارنی جنرل نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے قریبی مشیر جوناتھن اورخ پر ریاستی سلامتی سے متعلق الزامات میں فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے غزہ پٹی کی جنگ کے دوران حساس فوجی معلومات ایک جرمن اخبار کو لیک کیں۔اٹارنی جنرل گالی بہاراو۔میارا کے مطابق اورخ اور ایک دوسرے مشیر نے اسرائیلی فوج سے خفیہ معلومات حاصل کر کے جرمن اخبار ’بِلڈ‘ کو فراہم کیں۔
(جاری ہے)
ان کا مقصد مبینہ طور پر نیتن یاہو کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا اور اگست 2024ء میں غزہ میں چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی ہلاکت پر عوامی بیانیے کو متاثر کرنا تھا۔
یہ اسرائیلی یرغمالی اس وقت مارے گئے تھے، جب ان کے نگران فلسطینی محافظوں نے جنوبی غزہ پٹی کی ایک سرنگ میں انہیں قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ اسرائیل میں شدید عوامی غصے اور بڑے احتجاج کا باعث بنا تھا۔ تب متاثرہ خاندانوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو پر سیاسی مفادات کی خاطر سیزفائر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
اس کے برعکس نیتن یاہو نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے سارا الزام حماس پر عائد کیا تھا جبکہ حماس کا موقف تھا کہ مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی تھی۔ حماس کا اب تک بھی یہی موقف ہے۔ ایک دفاعی اہلکار کے مطابق مارے گئے چھ میں سے چار یرغمالی ان افراد کی فہرست میں شامل تھے، جنہیں حماس سیزفائر کی صورت میں رہا کرنے پر آمادہ تھی۔
جرمن اخبار ’بِلڈ‘ میں شائع شدہ رپورٹ ان ہلاکتوں کے چند روز بعد سامنے آئی تھی، جس میں حماس کی مذاکراتی حکمت عملی اور سیزفائر میں تعطل سے متعلق نکات بھی شامل تھے اور یہ بڑی حد تک نیتن یاہو کے موقف سے ہم آہنگ دکھائی دیتی تھی۔
اخبار ’بِلڈ‘ نے تحقیقات کے اعلان کے بعد کہا تھا کہ وہ اپنے ذرائع پر تبصرہ نہیں کرتا لیکن اس کی رپورٹ مستند دستاویزات پر مبنی تھی۔ آج پیر کے روز بھی اس جرمن روزنامے نے اس معاملے پر اپنا کوئی فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
جوناتھن اورخ نے کوئی بھی غلط کام سے انکار کیا ہے، جب کہ ان کے وکلاء نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے مؤکل کی بے گناہی ثابت ہو جائے گی۔
وزیر اعظم نیتن یاہو نے پیر کو دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ اٹارنی جنرل کا اعلان ’’قابلِ مذمت‘‘ہے اور اس کے وقت پر بھی ’’سنگین سوالات‘‘ اٹھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اورخ نے اسرائیل کی ریاستی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
واضح رہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کئی ماہ سے اٹارنی جنرل گالی بہاراو-میارا کو برطرف کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جنہیں گزشتہ حکومت نے مقرر کیا تھا۔ وہ نیتن یاہو کی کابینہ کی بعض پالیسیوں کی قانونی حیثیت پر اختلافات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
اسرائیلی اور فلسطینی وزیر برسلز میں، لیکن باہمی ملاقات نہیں ہو گی
یورپی یونین اور اس کے جنوبی ہمسایہ ممالک کے آج برسلز میں ہونے والے ایک وزارتی اجلاس میں اسرائیلی اور فلسطینی وزرائے خارجہ کی شرکت بھی متوقع ہے۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی نے دونوں وزراء کی کسی باہمی ملاقات کی تردید کی ہے۔
اگر یہ دونوں وزرائے خارجہ ایک ہی اجلاس میں شریک ہوتے ہیں، تو یہ اکتوبر 2023ء میں غزہ پٹی کی جنگ کے آغاز کے بعد سے پہلا موقع ہو گا کہ دونوں فریقوں کے اعلیٰ سطحی حکومتی نمائندے ایک ہی کمرے میں موجود ہوں گے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سعار کے دفتر کے مطابق وہ اس اجلاس میں شرکت کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس اور بحیرہ روم سے متعلقہ امور کی یورپی کمشنر دوبراوکا سویسا سے بھی ملاقات کریں گے۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی وزیر خارجہ وارسین آغابیکیان شاہین اس اجلاس میں شریک ہوں گی تاہم ان کی ان کے اسرائیلی ہم منصب سے کسی بھی قسم کی ملاقات کے امکان کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق، شاہین اپنے خطاب میں ’’غزہ میں جاری نسل کشی اور جبری بے دخلی، اسرائیلی ریاست کی جانب سے بھوک کی صورتحال پیدا کرنے کی منظم پالیسی، اور فلسطینی حکومت پر مالیاتی پابندیوں‘‘ پر روشنی ڈالیں گی۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شاہین مقبوضہ مغربی کنارے کی صورتحال پر بھی بات کریں گی، جہاں اسرائیلی فوج کے شمالی علاقوں میں کئی مہینوں سے جاری آپریشن نے ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا ہے۔
شاہین کی کالاس اور متعدد یورپی وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں بھی طے ہیں، جن میں وہ ’’نسل کشی، قبضے، اور زمینوں کے انضمام جیسے جرائم کے فوری خاتمے اور اسرائیلی حکومت کو امن کے بین الاقوامی مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کرنے‘‘ کا مطالبہ کریں گی، تاکہ فلسطینی عوام کو ان کا حق خودارادیت حاصل ہو سکے۔