اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جولائی 2025ء) اگر دنیا پرعورتیں حکمران ہوتیں تو کیا یہ دنیا کم جنگجو اور زیادہ پرامن ہوتی؟ اس کے باوجود حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ امریکہ، چین، روس، جاپان اور فرانس جیسے ’’'مہذب، جدید، حقوق نسواں کے علمبردار‘‘ ممالک میں آج تک کسی عورت کو سربراہ مملکت بننے کا موقع نہیں دیا گیا۔
محض جنس کی بنیاد پر کسی ''مثالی دنیا‘‘ کا تصور کرنا سادہ لوحی ہو سکتا ہے۔آئیے، چند نمایاں خواتین حکمرانوں کی مثبت اور منفی پہلوؤں پر سرسری نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے ناموافق حالات کے باوجود امور مملکت چلائے۔
بندرا نائیکے: سری لنکا
نہ صرف سری لنکا بلکہ دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز رکھتی ہیں۔
(جاری ہے)
اپنے شوہر سابق وزیراعظم سولومن بندرانائیکے کے قتل کے بعد جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا۔
3 بار وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ تعلیم، صحت اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی ان کی نمایاں کامیابیاں رہیں۔ مگر ان کے عہد میں سنہالی قوم پرستی، تامل فسادات کا آغاز، معاشی زوال اور خانہ جنگی کی بنیاد بھی پڑی۔اندرا گاندھی: بھارت
قومی طاقت، نیوکلیئر پروگرام، سن 71 کی جنگ اور بینکوں کے قومیانے جیسے دلیرانہ فیصلے کیے۔ مگر پہلے دور میں ایمرجنسی کا نفاذ، جبری نس بندی، جبکہ دوسرے دور حکومت میں سکھوں کا بڑی تعداد میں سفاکانہ قتل عام، آپریشن بلیو سٹار جیسے اقدامات ان کے دور کو ایک آمرانہ رنگ دے گئے۔
دنیا کی طاقت ور ترین خاتون سربراہ ہونے کےباوجود کئی لحاظ سے بدترین حکمران بھی کہلائی جاتی ہیں۔گولڈا مئیر: اسرائیل
’’آئرن لیڈی‘‘ کہلانے والی یہ رہنما مضبوط ارادوں کی مالک تھیں، مگر فلسطینی عوام کے حقوق سے انکار اور یومِ کیپور جنگ کی انٹیلیجنس ناکامی ان کے استعفے کا باعث بنی۔
مارگریٹ تھیچر: برطانیہ
برطانیہ کی پہلی سربراہ جن کی آمد شروع کے دو سال تو خوش گوار ہوا کا جھونکا رہی لیکن اقتدار کی طاقت نے انہیں ایک بدترین ڈکٹیٹر بنا دیا۔
سخت معاشی اصلاحات، فاکلینڈ جنگ میں برطانیہ کی قیادت اور لیبر یونینز کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ ان کی پالیسیاں ملک میں گہری سیاسی تقسیم کا باعث بنیں جو آج بھی برطانیہ بھگت رہا ہے۔کورازون اکینو: فلپائن
اپنے شوہر نینوئی اکینو جو آمر فرڈینینڈ مارکوس کے شدید مخالف تھے، کے قتل کے بعد سیاسی میدان میں آئیں اور آمریت کے خلاف تحریک کی علامت بنیں۔
جمہوری اداروں اور بین الاقوامی وقار کو بحال کیا۔ زرعی اصلاحات کیں مگر فوجی اور کمیونسٹ بغاوتوں نے معاشی سرگرمیوں کو متاثر کیا، جس پر ان کی قیادت کو چیلنج کیا گیا۔ انہیں مادر جمہوریت کا خطاب دیا گیا۔بے نظیر بھٹو: پاکستان
دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم۔ اپنے والد سابق وزیراعظم کی جبری برطرفی اور پھانسی کے بعد جمہوریت کی بحالی کے لیے پرامن جدوجہد کرتی رہیں اور بالاخر ملک کی دوبار وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن فوجی ریشہ دوانیوں اور سیاسی چالوں کے باعث دونوں مرتبہ مدت سے پہلے ہی ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔
خواتین کی تعلیم، صحت اور سماجی اصلاحات ان کے ایجنڈے میں شامل رہا، مگر دونوں ادوار میں ان پر کرپشن کے الزامات لگے اور سیاسی انتشار پھیلا کر ان کی حکمرانی کو داغ دار کیا۔ بالاخر 2007 میں ملک کی جہاندیدہ سیاست دان کو قتل کر دیا گیا۔ ان کے دور حکومت گو مختصر رہے لیکن دنیا میں پاکستان کا روشن اور مثبت امیج نمایاں ہوا۔ویولیتا چمارو: نکاراگوا
بنیادی طور پر ایک گھریلو خاتون تھیں لیکن اپنے شوہر جو آمر وقت ''ساموزا‘‘ کے بدترین مخالف تھے، کے قتل کے بعد سیاست میں آئیں اور لاطینی امریکی ملک نکاراگوا کی پہلی خاتون صدر بنی۔
ایک نڈر، معتدل مزاج اور مفاہمت پسند رہنما۔ ان کے دور میں خانہ جنگی کا خاتمہ، جمہوریت کی بحالی اور خواتین کی سیاست میں شمولیت بڑھی، لیکن معاشی نظم و نسق میں کچھ کمزوری رہی لیکن ان کا 7 سالہ دور اقتدار مجموعی طور پر بہترین اور قابل ستائش رہا۔خالدہ ضیاء: بنگلہ دیش
فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد جمہوری عمل کی قیادت کی، مگر بعد ازاں ان کی سیاست خاندانی مفادات، سیاسی انتقام پر مبنی اور ادارہ جاتی کمزوری کا شکار ہو گئی۔
تانسو چیلر: ترکی
ترکی کی پہلی خاتون وزیراعظم۔ معاشیات کی ماہر ہونے کے باوجود سیاسی عدم استحکام، کردوں کے خلاف سخت گیر پالیسی، اور بدعنوانی نے ان کے اقتدار کو متاثر کیا۔
شیخ حسینہ واجد: بنگلہ دیش
بنگلہ دیش کے بابائے قوم ''شیخ مجیب‘‘ کی واحد اولاد جو قتل ہونے سے محفوظ رہی۔ ترقیاتی منصوبے، خواتین کی تعلیم، اور معاشی استحکام ان کی قیادت کی نمایاں جھلک ہیں۔
مگر آمریت، ریاستی جبر اور سیاسی مخالفین سے سخت سلوک کی وجہ سے ان پر شدید تنقید بھی ہوئی۔ آمرانہ طرز حکمرانی کے باعث 2024 میں ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بنا پر حسینہ واجد کو جلاوطن ہونا پڑا۔میگاوتی سوئیکارنوپتری: انڈونیشیا
صدر سوئیکارنو کی بیٹی، جنہوں نے آمر وقت سوہارتو کے استعفے تک پرامن جہموری جدوجہد کی اور انڈونیشیا کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوئیں۔
جمہوریت کی بحالی میں ان کا کردار قابل قدر رہا، لیکن فوج کی بالادستی در پردہ قائم رہی۔اسی بنا پر ان کی قیادت میں معیشت سست روی کا شکار رہی اور کرپشن پر بھی قابو نہ پایا جا سکا۔گلوریا ماکاپاگال آرویو: فلپائن
دو مسلسل ادوار میں صدارت کی۔ معاشی اصلاحات، سیاسی استحکام، تعلیم و صحت میں بہتری اور کامیاب بین الاقوامی سفارت کاری کی داعی، مگر انتخابی بدعنوانی، کرپشن اور اظہارِ رائے پر قدغن نے ان کی ساکھ کو متاثر کیا۔
عدالتی فیصلے کی رو سے کئی سال نظر بند اور جیل کاٹنی پڑی۔انگیلا میرکل: جرمنی
جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر، جو نہ صرف یورپ کی طاقت ور ترین خاتون سمجھی گئیں بلکہ انہیں عقلی قیادت، اخلاقی استقامت اور خاموش استحکام کی علامت مانا گیا۔ دس لاکھ مہاجرین کو پناہ، یورپی یونین کے بحران زدہ ممالک کو بیل آؤٹ پیکج کی فراہمی، سائنس، ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے جرمن معیشت کو مستحکم کیا اور کووڈ جیسی وبا میں انگیلا میرکل ایک مضبوط قیادت بن کر ابھریں۔
میرکل دنیا کے حکمرانوں کے لیے ہمیشہ ایک مثال رہیں گی۔میشل باچیلٹ: چلی
چلی کی پہلی خاتون صدر جو دو بار ملک کی سربراہ مملکت منتخب ہوئیں۔ بحیثیت سربراہ تعلیم، صحت اور خواتین کے حقوق کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ فوجی آمریت کے خلاف مزاحمت کی علامت بھی بنیں، مگر دوسری مدت میں بیٹے پر بدعنوانی کے الزامات نے ان کا سیاسی قد کم کیا۔
مجموعی طور پر ان کا کردار مثبت رہا۔ینگ لک شناواترا: تھائی لینڈ
تھائی لینڈ کی پہلی خاتون وزیراعظم جو کسانوں کے لیے خوش آئند پالیسیوں کی حامل رہیں، مگر بدعنوانی اور فوجی بغاوت نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
ڈلما روسیف 2011 ـ برازیل
غریبوں اور خواتین کی نمائندہ، برازیل انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور اولمپکس منعقد کرنے والی۔
مگر معاشی بدحالی، سیاسی افراتفری اور کرپشن کے سبب مواخذے کا شکار ہوئیں۔ بعض مبصرین کے مطابق کرپشن پر مواخذہ ایک سیاسی سازش تھی۔پارک گن ہے: جنوبی کوریا
آمر صدر پارک چونگ ہے کی بیٹی اور جنوبی کوریا کی پہلی خاتون صدر جنہوں نے اپنے دور حکومت میں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور کرپشن کی ایک مثال قائم کی جس کے نتیجے میں لاکھوں عوام نے احتجاجی مظاہرے کیے۔
2017 میں انہیں پارلیمنٹ میں مواخذے کے بعد عدالتی حکم پر برطرف کر دیا گیا۔آنگ سانگ سوچی: میانمار
آزادی کے بانی اور میانمار کے قومی ہیرو ''جنرل آنگ سان‘‘ کی بیٹی جنہوں نے جہموری اقدار کے لیے برسوں جدوجہد کی اور جمہوریت کی عالمی علامت کہلائیں۔ نوبیل انعام یافتہ سوچی نے اقتدار میں آ کر روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی بلکہ نسل کشی میں معاونت جیسے الزامات اور فوج سے مفاہمت ان کے زوال کا سبب بنی۔
جیسنڈا آرڈرن: نیوزی لینڈ
جیسنڈا آرڈرن کا شمار دنیا کی ان کم عمر ترین خواتین رہنماؤں میں ہوتا، جو بہت کم عمری میں وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئیں۔ان کی عمر 37 برس تھی، جب انہوں نے نیوزی لینڈ کی چالیسویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوستی، ہمدرد قیادت اور بحرانوں میں تحمل کا مظاہرہ کرنے والی خاتون ہیں۔
کورونا وبا، کرائسٹ چرچ حملے اور ماحولیاتی چیلنجز کے دوران ان کی رہنمائی عالمی سطح پر سراہا گیا۔ وہ جدید تاریخ میں نرم قیادت کا استعارہ بنیں۔یہ کہنا درست نہیں کہ عورت کی حکمرانی امن یا انصاف کی مکمل ضمانت ہے۔ عورت بھی اقتدار کے کھیل، سیاسی سازش اور بدعنوانی میں ملوث ہو سکتی ہے۔ مگر جب عورت حکمران بنتی ہے تو اس سے توقع کی جاتی ہے کہ حتی الامکان جنگ کے بجائے مکالمہ، ظلم کے بجائے فلاح، اور انا کے بجائے انسانیت کو ترجیح دے۔
تاہم، جن خواتین سربراہوں نے طاقت، عسکریت اور جبر کا راستہ اپنایا تو اس کے نتائج بھی بھیانک ہی برآمد ہوئے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ خواتین کی قیادت کو "متبادل" کے طور پر نہیں بلکہ "ضرورت" کے طور پر دیکھا جائے۔ سیاسی، سماجی اور اقتصادی فیصلوں میں خواتین کی یکساں شمولیت ہی دنیا کو زیادہ متوازن و پرامن بنا سکتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔