قومی کمیشن برائے وقار نسواں کا اسلام آباد میڈیکو لیگل ریگولیشن ایکٹ 2025 پر مشاورتی اجلاس

جمعہ 25 جولائی 2025 19:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جولائی2025ء) قومی کمیشن برائے وقار نسواں نے چیئرپرسن ام لیلیٰ اظہر کی زیر صدارت اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میڈیکو لیگل ریگولیشن ایکٹ 2025 کے مسودے پر پہلا قومی مشاورتی اجلاس منعقد کیا۔ یہ مجوزہ قانون اسلام آباد میں میڈیکو لیگل خدمات کو منظم کرنے اور حقوق پر مبنی فرانزک نظام کو موثر بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

قومی کمیشن برائے وقار نسواں نے خواتین کے حقوق سے متعلق قوانین کے جائزے کے اپنے آئینی مینڈیٹ کے تحت آئی سی ٹی کے لیے ایک معیاری، حقوق پر مبنی اور صنفی حساس فریم ورک تجویز کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ’’پاکستان میں میڈیکو لیگل قانون‘‘ کے موضوع پر اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اس اہم موضوع پر روشنی ڈالی۔

(جاری ہے)

یہ اصلاح ایک عرصے سے درکار تھی جو انصاف، وقار اور احتساب کے قانونی و طبی نظام کو بحال کرنے کی کوشش ہے۔

اس مشاورت میں وزارت انسانی حقوق، وزارت قانون و انصاف، وزارت قومی صحت، آئی سی ٹی ایڈمنسٹریشن، پمز، پولی کلینک، لیگل ایڈ سوسائٹی، ایل جے سی پی اور ملک بھر کے ممتاز فرانزک و صنفی ماہرین نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت انسانی حقوق نے ایک متوازن نقطہ نظر اپنانے پر زور دیا جو متاثرین اور ملزمان دونوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور میڈیکو لیگل رپورٹوں کی سخت ڈیڈ لائنز پر تحفظات کا اظہار کیا۔

پمز نے ’’فیبریکیٹڈ/غیرفیبریکیٹڈ‘‘ جیسے الفاظ کو ختم کر کے ایک تیسرا آپشن متعارف کرانے کی تجویز دی تاکہ قبل از وقت فیصلوں سے بچا جا سکے۔ ’’فرینڈلی انجریز‘‘ کی اصطلاح بھی زیر غور آئی۔وزارت قانون نے سندھ اور پنجاب کے مجوزہ مسودات کے ساتھ تقابلی جائزے کی سفارش کی تاکہ ہم آہنگی اور وضاحت ممکن ہو۔ پولی کلینک اور قومی کمیشن برائے وقار نسواں نے نفاذ اور عوامی رسائی کے لیے ڈیجیٹل آلات اور آگاہی مہمات کی اہمیت پر زور دیا۔

صنفی تشدد کے کیسز میں خدمات انجام دینے والے میڈیکل افسران کی قانونی و جسمانی حفاظت ایک مستقل خدشہ رہا، اس پر اقدامات کیے جائیں۔ شرکا نے پولیس، عدلیہ اور بنیادی صحت مراکز کی شمولیت کو آئندہ مشاورتوں میں لازم قرار دیا۔ این سی ایس ڈبلیو میں خصوصی ڈرافٹنگ کمیٹی کی تشکیل زیر غور ہے جس پر بات کرتے ہوئے چیئرپرسن ام لیلیٰ اظہر نے کہا کہ یہ صرف ایک نیا قانون نہیں، ہم ایک ایسے نظام کو چیلنج کر رہے ہیں جہاں تشدد سے بچ جانے والے افراد اکثر اسی نظام میں مزید ظلم کا سامنا کرتے ہیں جو ان کا محافظ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قومی لمحہ ہے ، ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی کچھ کر رہے ہیں؟