چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی کا عدالتی اصلاحات کو انسانی پہلوئوں سے جوڑنے کی ضرورت پر زور

جمعہ 25 جولائی 2025 22:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جولائی2025ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدلیہ خصوصاً ضلعی عدلیہ کو درپیش جذباتی، نفسیاتی اور ادارہ جاتی دبائو کو تسلیم کرتے ہوئے عدالتی اصلاحات کو انسانی پہلوئوں سے جوڑنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا جج جسے ادارہ جاتی حمایت حاصل ہو، وہ زیادہ منصف، متوجہ اور مؤثر انداز میں عدالتی خدمات سرانجام دے سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے یہ خطاب فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں "عدالتی فلاح و بہبود کے عالمی دن" کے موقع پر منعقدہ قومی سمپوزیم میں کیا، جس کا عنوان "جواب دہ انصاف کا انسانی پہلو" تھا۔ چیف جسٹس آفریدی نے نیشنل جوڈیشل (پالیسی ساز) کمیٹی کے تحت مختلف عدالتی اصلاحاتی اقدامات کا ذکر کیا، جن میں ماڈل کریمنل ٹرائل کورٹس کا قیام، دیوانی و فوجداری مقدمات کے فوری فیصلے کے لیے ٹائم لائنز، پروفیشنل ایکسیلینس انڈیکس کی تیاری اور عدلیہ میں مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال کے لیے رہنما اصولوں کی تشکیل شامل ہیں۔

(جاری ہے)

ضلعی عدلیہ کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دی گئی، جن میں بیرونی دباؤ سے آزادی، کارکردگی کا معیاری جائزہ، بھرتی کا یکساں طریقہ کار، سروس شرائط میں برابری، اور بین الاقوامی مواقع تک رسائی جیسے امور شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے چین کی سپریم کورٹ اور ترکیہ کی آئینی عدالت کے ساتھ جلد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کا اعلان بھی کیا، جن کے تحت ججوں کا تبادلہ اور عدالتی تعاون ممکن بنایا جائے گا۔

اس اہم تقریب میں اعلیٰ عدلیہ اور ضلعی عدلیہ کے ججز، قانونی ماہرین، ترقیاتی شراکت داروں اور دیگر ادارہ جاتی اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔ جسٹس وقار احمد (پشاور ہائی کورٹ)، جسٹس ارباب محمد طاہر (اسلام آباد ہائی کورٹ)، جسٹس اقبال احمد کاسی (بلوچستان ہائی کورٹ)، جسٹس جواد اکبر سروانہ (سندھ ہائی کورٹ)، اور جسٹس ابھر گل خان (لاہور ہائی کورٹ) نے سمپوزیم میں بطور پینلسٹ شرکت کی۔

سمپوزیم کے اختتام پر "اسلام آباد اعلامیہ برائے عدالتی فلاح و بہبود" متفقہ طور پر منظور کیا گیا، جس میں عدالتی فلاح و بہبود کو "جواب دہ اور پائیدار نظامِ انصاف کے لیے ایک بنیادی ضرورت" قرار دیا گیا۔ اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عدالتی اصلاحات کے تمام پہلوؤں—مقدمات کے انتظام، ڈیجیٹل نظام، بنیادی ڈھانچے اور عملے—میں عدالتی فلاح کو مرکزی حیثیت دی جائے اور ایک ہمدرد، رفاقتی اور ادارہ جاتی نگہداشت کا ماحول قائم کیا جائے۔

اعلامیہ میں قومی و صوبائی سطح پر پالیسی سازی اور تربیت میں عدالتی فلاح کو شامل کرنے اور ترقیاتی شراکت داروں سے "قومی عدالتی فلاح و بہبود فریم ورک" کے ڈیزائن اور نفاذ میں تعاون کی اپیل کی گئی۔ چیف جسٹس نے عدلیہ کی "خاموش طاقت" کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا کہ یہ دن صرف خراجِ تحسین نہیں، بلکہ ایک وعدہ ہے۔ آپ تنہا نہیں ہیں، پوری عدالتی ادارہ جاتی طاقت آپ کے پیچھے کھڑی ہے۔