
پاکستان: گلگت بلتستان میں زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کرتی لیڈی ہیلتھ ورکر
یو این
منگل 5 اگست 2025
17:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 اگست 2025ء) پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کی وادی خپلو فطری حسن اور مشکل زندگی کا نمونہ ہے۔ یہاں دیہات ایک دوسرے سے الگ تھلگ واقع ہیں جہاں طبی سہولیات نایاب نعمت تصور کی جاتی ہیں اور دشوار گزار طویل فاصلوں کے باعث ان تک رسائی بہت بڑا مسئلہ ہے۔
تاہم، یہاں گھر گھر جا کر طبی سہولت مہیا کرنے والی مقامی لیڈی ہیلتھ ورکر خاموشی سے ان علاقوں کے لوگوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں۔
یونیسیف کے تعاون سے یہ خواتین طبی کارکن ان لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ انہیں غذائی قلت سے چھٹکارا پانے اور اور سماجی و ثقافتی رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔بشریٰ بھی انہی طبی کارکنوں میں شامل ہیں جو گزشتہ 13 سال سے اپنے علاقے میں لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔
(جاری ہے)
وہ روزانہ گھروں میں جا کر ماں اور بچے کی صحت، خاندانی منصوبہ بندی، اور غذائیت کے حوالے سے مشورے فراہم کرتی ہیں۔
وہ اپنے کام کے ابتدائی ایام کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اُس وقت حمل میں بڑے پیمانے پر اموات ہوتی تھیں۔ حاملہ خواتین میں خون کی کمی (انیمیا) اور دیگر مسائل عام تھے اور اکثر اوقات زچگی کے دوران ماں اور بچہ دونوں ہی جان کی بازی ہار جاتے تھے۔وہ بتاتی ہیں کہ ہر سال حمل اور زچگی کے دوران کم از کم تین یا چار اموات واقع ہوتی تھیں۔ یہ صورتحال دل دہلا دینے والی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے اسے روکا نہیں جا سکتا۔
آج بشریٰ فخریہ لہجے میں بتاتی ہیں کہ اب حمل اور زچگی کے دوران ہونے والی اموات نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہ اس تمام عرصہ میں ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

غذائی قلت کا سدباب
مسلسل محنت اور ہمدردانہ انداز میں کئے گئے اقدامات کی بدولت بشریٰ اور ان کی ساتھی لیڈی ہیلتھ ورکرز نے بے شمار زندگیاں بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایسے لوگوں کی زندگی میں آنے والی غیرمعمولی تبدیلی ہے جو کبھی غذائی قلت، بیماریوں اور قابل علاج اموات سے بری طرح متاثر تھے۔
مناسب غذا سے متعلق آگاہی کی کمی ان لوگوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ تھی۔
کئی برس تک بہت سی نئی اور حاملہ مائیں متوازن غذا کی اہمیت سے ناواقف رہیں جس کے نتیجے میں ان کے بچے غذائی قلت کا شکار رہتے تھے۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس (ڈی ایچ او) کے نیوٹریشن آفیسر احتشام الحق بتاتے ہیں کہ ماں کی صحت کے حوالے سے غذا کا معاملہ اس علاقے میں ہمیشہ سے ایک نظرانداز شدہ مسئلہ رہا ہے۔ لوگ اس پر زیادہ غور نہیں کرتے تھے لیکن اس کے نتائج نہایت سنگین تھے۔
اب جب لیڈی ہیلتھ ورکرز کو کسی بچے میں شدید غذائی کمی کے بارے میں اطلاع ملتی ہے تو وہ فوراً اُسے قریبی غذائیت مرکز میں بھیج دیتی ہیں اور اس کی حالت کا باقاعدہ جائزہ لیتی رہتی ہیں۔روایت اور غذائیت کی جنگ
مقامی طور پر تیار کی جانے والی نمکین چائے کا استعمال اس علاقے میں غذائی قلت کا ایک بڑا سبب تھا۔ یہ چائے نمک اور سوڈیم بائی کاربونیٹ جیسے اجزا سے بنائی جاتی اور دن بھر پی جاتی تھی۔
اکثر یہ کھانے کا متبادل بن جاتی تھی اور اس روایت کو بدلنا آسان نہیں تھا۔بشریٰ وضاحت کرتی ہیں کہ یہ چائے جسم میں آئرن کی کمی، بلند فشار خون جیسے مسائل اور معدے کی خرابیوں کا باعث بنتی تھی۔ لیڈی ہیلتھ ورکر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنے نگران افسر کے ساتھ لوگوں سے مسلسل ملاقاتیں کرتیں اور انہیں اس چائے کے نقصانات سے آگاہی دیتی تھیں لیکن ایسی پختہ عادات کو بدلنے میں بہت سا وقت صرف ہوا۔
مقامی لیڈی ہیلتھ سپروائزر ناہید فاطمہ اس نمکین چائے کو 'بلتی شراب' کہتی ہیں۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کہ پینے والے کو گویا اس کی لت پڑ جاتی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ضلعی افسر صحت نے یونیسف کے تعاون سے ماؤں کو اس چائے کے نقصانات سے آگاہ کیا اور انہیں صحت مند متبادل اپنانے کی ترغیب دی۔ نتیجتاً، آج یہ نقصان دہ روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

مصنوعی دودھ کے خلاف مہم
ایک اور تشویشناک مسئلہ جس پر فوری توجہ دینا ضروری تھا وہ نومولود بچوں کو چائے سفید کرنے والے محلول دودھ پلانے کا بڑھتا ہوا رجحان تھا۔ اس مصنوعی دودھ کو غلط فہمی کے تحت ماں کے دودھ کا سستا متبادل سمجھا جا رہا تھا۔ سبزیوں کے تیل اور مصنوعی اجزا سے تیار کردہ یہ شے ان ماؤں میں مقبول ہو گئی جو دودھ کا کوئی کم قیمت متبادل تلاش کر رہی تھیں۔
احتشام بتاتے ہیں کہ انہوں نے یونیسف کے تعاون سے ماؤں کو اس سفید محلول کے خطرات کے بارے میں آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ یہ اصل دودھ نہیں بلکہ تیل اور مصنوعی اجزا کا ایک نقصان دہ آمیزہ ہے۔ اس طرح یہ نقصان دہ عادت بتدریج علاقے سے ختم کر دی گئی۔ آج خواتین نہ صرف ماں کے دودھ کی اہمیت سے بہتر طور پر واقف ہیں بلکہ اپنے بچوں کے لیے محفوظ اور مناسب غذا استعمال کرنے کے لیے زیادہ پرعزم بھی ہیں۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کے کام کا ایک اہم پہلو ساسوں کو آگاہی دینا بھی ہے جن کی بعض پختہ روایات زچگی کے بعد ان کی بہوؤں کی صحت اور غذائیت میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ دراصل، ان علاقوں میں روایت ہے کہ مائیں بچوں کو جنم دینے سے دو یا تین ماہ بعد ہی کھیتوں میں کام پر واپس چلی جاتی ہیں۔ گھروں میں ان کے بچوں کی دیکھ بھال ساس کے ذمے ہوتی ہے جو ماؤں کی غیرموجودگی میں انہیں غیرمعیاری فارمولا دودھ پلاتی ہیں۔
ناہید کہتی ہیں کہ مسلسل مشاورتوں کے ذریعے لیڈی ہیلتھ ورکر ان رویوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اب مائیں یہ سمجھنے لگی ہیں کہ بچے کو اپنا دودھ پلانا محض نومولود کے لیے ہی نہیں بلکہ خود ان کی اپنی صحت کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس طرح حالات میں بہتری آ رہی ہے لیکن اس مسئلے پر مزید توجہ اور کوشش کی ضرورت ہے۔
گھریلو غذا کی ترویج
لیڈی ہیلتھ ورکرز کا کام صرف انفرادی مشاورت تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ ہر ماہ سماجی گروہوں میں ماؤں کے لیے تربیتی نشستیں بھی منعقد کرتی ہیں۔
یہ نشستیں سیکھنے، غلط فہمیوں کو دور کرنے اور معاونت فراہم کرنے کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کرتی ہیں۔ناہید بتاتی ہیں کہ لیڈی ہیلتھ ورکر ماؤں کو متوازن خوراک، بچے کو اپنا دودھ پلانے کی اہمیت اور بچوں کی صحت پر نظر رکھنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔ ان نشستوں کا ایک اہم حصہ ماؤں کو غذائیت جانچنے والی ٹیپ کے استعمال کی تربیت دینا ہوتا ہے تاکہ وہ جلد علامات پہچان کر غذائی قلت کے خطرات سے آگاہ ہو سکیں۔
اس کے ساتھ بچے کی خاندانی دیکھ بھال کے رجحان کو بھی فروغ دیا جاتا ہے جس میں والد کا کردار بھی شامل ہوتا ہے۔یہ نشستیں صرف ماؤں تک ہی محدود نہیں ہوتیں بلکہ ان میں رضاکار بھی شرکت کرتے ہیں، جو یہ معلومات دوسرے افراد تک پہنچاتے ہیں۔ عوامی سطح کی یہ حکمت عملی بے حد مؤثر ثابت ہوئی ہے اور اس نے صحت کی بہتری کے لیے ایک باخبر اور متحرک سماجی برادری کو جنم دیا ہے۔

بلتی خوراک کے استعمال کا فروغ
لیڈی ہیلتھ ورکر مقامی طور پر دستیاب غذائیت سے بھرپور خوراک اور بالخصوص بلتی غذا کے استعمال کو فروغ دینے کا کام بھی کرتی ہیں جس میں خوبانی کی گری، اخروٹ، انڈے، دودھ، سبزیاں اور گوشت شامل ہوتے ہیں۔ بشریٰ بتاتی ہیں کہ وہ ماؤں کو مقامی اجزاء سے اپنے اور بچوں کے لیے متوازن اور صحت بخش کھانے تیار کرنے کو کہتی ہیں۔
صحت کی بہتر نگرانی کے ساتھ یہ غذائی تبدیلی علاقے میں ماں اور بچے دونوں کی صحت اور غذائیت میں مثبت تبدیلی لائی ہے۔لیڈی ہیلتھ ورکر غیر مقامی بازاروں میں غیرمعیاری اور غیر منظور شدہ خوراک کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بھی کام کرتی ہیں۔ احتشام بتاتے ہیں کہ خواتین طبی کارکنوں نے سکولوں میں بچوں اور اساتذہ کو ایسی خوراک کے نقصانات کے بارے میں تربیت دی ہے۔
اس کے نتیجے میں خود بچوں نے اپنے والدین کو گھر کا تیار کردہ کھانا اپنانے پر قائل کیا۔ اس تبدیلی سے نہ صرف غذائیت میں بہتری آئی بلکہ خوراک سے متعلق بیماریوں میں بھی کمی واقع ہوئی۔ملک گیر اقدامات اور نتائج
چائلڈ انویسٹمنٹ فنڈ فاؤنڈیشن کی مسلسل معاونت کے ساتھ یونیسف نے پاکستان بھر کے 62 اضلاع میں زچہ و بچہ کی غذائیت بہتر بنانے کی کوششوں کو مزید مضبوط کیا ہے۔
2024 میں 15 لاکھ بچوں کی طبی جانچ کی گئی، 59 ہزار سے زیادہ بچوں کا علاج کیا گیا اور 1,500 سے زیادہ خواتین طبی فراہم کنندگان اور خواتین طبی کارکنان کو تربیت دی گئی۔ اسی طرح، 9 ہزار سے زیادہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی رہنمائی ہوئی، ماؤں کے 5,400 معاون گروہ بنائے گئے اور 7 لاکھ سے زیادہ ماؤں اور نگرانوں تک رسائی حاصل کی گئی۔
وادی خپلو میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی محنت نے علاقے کی صحت کا نقشہ بدل دیا ہے۔
ناہید کہتی ہیں کہ یہ صرف صحت اور غذائیت کے فروغ کا کام ہی نہیں بلکہ زندگیاں بدلنے اور سماجی برادریوں کو بااختیار بنانے کی مہم بھی ہے۔ یونیسف کے تعاون اور ان خواتین کی لگن سے اب یہ لوگ صحت مند، باخبر اور مسائل سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے کام کا اثر ہر ماں اور بچے کی زندگی میں محسوس کیا جا رہا ہے۔گلگت بلتستان کی لیڈی ہیلتھ ورکر پر یہ مضمون پہلے انگریزی میں شائع ہوا تھا۔
متعلقہ عنوان :
مزید اہم خبریں
-
صدر ٹرمپ کا آئندہ 24 گھنٹوں میں بھارت پر مزید ٹیرف لگانے کا اعلان
-
خشکی میں گھرے ممالک کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے ہونے چاہیں، یو این
-
جنیوا: پلاسٹک آلودگی کے خاتمہ کے لیے مذاکرات آخری مرحلے میں داخل
-
ایف اے او کا برطانیہ کے اشتراک سے افغانستان میں زرعی منصوبہ
-
غزہ: خوراک کی تلاش میں بھوکے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری
-
سوڈان خانہ جنگی میں ہلاکتوں اور انسانی بحران میں اضافہ، اوچا
-
پاکستان: گلگت بلتستان میں زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کرتی لیڈی ہیلتھ ورکر
-
مودی حکومت نے 5 اگست 2019 کو نہ صرف جموں و کشمیر کے لوگوں کے خلاف سازش کی بلکہ اقوام متحدہ کی قرارداوں کی بھی صریحاً خلاف ورزی کی، سینیٹر شیری رحمن
-
پلاسٹک آلودگی صحت کے لیے سنگین خطرہ، سالانہ 1.5 ٹریلین ڈالر کا نقصان
-
احسن اقبال کا زیڈ ٹی ای ہیڈکوارٹر کا دورہ ،پاکستان میں ٹیکنالوجی و مہارت کے شعبے میں انقلابی شراکت داری کا اعلان
-
مجھ پر تنقید کرنا ارکان کا حق ہے،میں جواب نہیں دوں گا،سپیکرقومی اسمبلی
-
بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنا ہوگا ، وزیر خارجہ
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.