سلامتی کونسل: اسرائیلی یرغمالیوں اور غزہ کے فلسطینیوں کی حالت زار زیربحث

یو این بدھ 6 اگست 2025 06:30

سلامتی کونسل: اسرائیلی یرغمالیوں اور غزہ کے فلسطینیوں کی حالت زار زیربحث

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں حالات تیزی سے بگڑتے جا رہے ہیں اور غزہ کے بحران کا ایسا سیاسی حل نکالنے کی ضرورت ہے جس سے تنازع کے فریقین میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔

یہ بات اقوام متحدہ کے شعبہ سیاسی امور میں یورپ، وسطی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے لیے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل میروسلاوو جینکا نے کونسل کے اجلاس میں ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی ہے۔

یہ اجلاس اسرائیل کی جانب سے بلایا گیا تھا جس میں غزہ کے فلسطینی مسلح گروہوں کی قید میں اسرائیلی یرغمالیوں کو درپیش حالات پر بات چیت کی گئی۔

Tweet URL

گزشتہ روز حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد نے دو لاغر یرغمالیوں کی تصاویر جاری کی تھیں جس پر غم و غصے اور مذمت کا اظہار سامنے آیا۔

(جاری ہے)

ایوتار ڈیوڈ اور روم براسلاوسکی نامی ان قیدیوں کی تصاویر پر بات کرتے ہوئے میروسلاوو جینکا نے کہ کہ ایوتار کو بظاہر اپنی قبر کھودنے پر مجبور کرنے کے مناظر نہایت ہولناک اور انسانیت کی توہین ہیں۔

ایوتار کے بھائی ایلے نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی اور بتایا کہ غزہ میں تاحال یرغمال رکھے گئے لوگوں کے خاندانوں اور عزیزوں کو شدید تکالیف اور مشکلات کا سامنا ہے۔

جنگی جرم

اس وقت غزہ میں حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کے پاس 50 یرغمالی قید ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں 28 کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ رہا ہونے والے یرغمالیوں نے دوران قید اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی بدسلوکی کا پریشان کن احوال بتایا ہے۔

حماس اور دیگر مسلح گروہ اب تک یرغمالیوں کی درجنوں ویڈیو جاری کر چکے ہیں جن میں دباؤ کے تحت دیے گئے بیانات بھی شامل ہیں۔

ان ویڈیو سے قیدیوں کی تکالیف کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ بین الاقوامی قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ لوگوں کو یرغمال بنانا ممنوع اور جنگی جرم ہے۔ قیدیوں سے انسانی سلوک روا رکھا جانا چاہیے اور انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کو ان تک رسائی دی جانی چاہیے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ تمام یرغمالیوں کو فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کیا جائے۔

غزہ کے ناقابل برداشت حالات

میروسلاوو جینکا ںے کونسل کو بتایا کہ غزہ کے حالات ہولناک ہیں جہاں فلسطینیوں کو روزانہ بدترین اور غیرانسانی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد اب تک 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ مئی کے اختتام سے اب تک 1,200 شہری خوراک کے حصول کی کوشش میں ہلاک اور 8,100 زخمی ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور لوگوں کی تکالیف ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔

اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل پر بدستور کڑی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جبکہ علاقے میں آنے والی امداد لوگوں کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔

بھوک کا راج

انہوں نے کونسل کو بتایا کہ غزہ میں ہر جا بھوک پھیلی ہے جسے بچوں کے چہروں پر اور والدین کی مایوسی کی صورت میں صاف دیکھا جا سکتا ہے جو انتہائی بنیادی ضرورت کی چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں داؤ پرلگا رہے ہیں۔

بین الاقوامی قانون کے تحت شہریوں کو جنگ سے تحفظ دینا لازم ہے اور انہیں حملوں کا نشانہ بنانا اور خوراک سمیت ضروری امداد تک رسائی سے محروم رکھنا جنگی جرم ہے۔

انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی امداد کی تیزرفتار اور بلارکاوٹ رسائی یقینی بنائے تاکہ مزید تکالیف اور جانی نقصان سے بچا جا سکے۔

جنگ میں توسیع پر تشویش

اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے غزہ بھر میں عسکری کارروائیوں کا دائرہ بڑھانے کے ممکنہ فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو انہیں انتہائی تشویش ناک کہنا مناسب ہو گا۔

ایسے فیصلے سے لاکھوں فلسطینیوں کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے اور غزہ میں بدستور یرغمال بنا کر رکھے گئے لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غزہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا اٹوٹ انگ ہے اور رہے گا۔

عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی مشاورتی رائے کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں آباد کاری کی تمام نئی سرگرمیاں روکنا، تمام آباد کاروں کو مقبوضہ علاقوں سے نکالنا اور وہاں اپنی غیرقانونی موجودگی کو ختم کرنا اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔

تباہی روکنے کا واحد راستہ

بریفنگ کے اختتام پر انہوں نے اقوام متحدہ کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ مستقل جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی فوری و غیرمشروط رہائی اور علاقے میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی بلاروک و ٹوک فراہمی ہی غزہ میں تشدد اور انسانی تباہی کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ یا وسیع تر اسرائیل۔فلسطین تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں۔ سیاسی اور سلامتی کا ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہو گا جس سے غزہ میں انسانی تباہی کا خاتمہ ہو، جلد از جلد بحالی اور تعمیرنو کا آغاز ہو سکے اور سلامتی کے بارے میں فریقین کے جائز خدشات دور ہو سکیں، اسرائیل کا غیرقانونی قبضہ ختم ہو اور مسئلے کا پائیدار دو ریاستی حل ممکن بنایا جا سکے۔