اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اگست 2025ء) وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جمعرات کے روز پاکستان کی سالانہ آبادی میں 2.55 فیصد اضافے کی شرح کو ایک تشویشناک رجحان قرار دیا۔ اور اس کے حل کے لیے فوری اور مربوط پالیسی اقدامات کی قومی سطح پر ضرورت پر زور دیا۔
وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، جس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا جائزہ لیا گیا اور مؤثر حکمت عملیوں پر غور کیا گیا تاکہ اس مسئلے کو بہتر طور پر قابو میں لایا جا سکے۔
وزیرِاعظم نے خبردار کیا کہ اگر مربوط منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آبادی میں اضافے سے ملکی وسائل اور اقتصادی ترقی پر شدید دباؤ پڑ سکتا ہے۔
(جاری ہے)
2050 تک پاکستان کی آبادی 40 کروڑ سے تجاوز کرنے کا امکان
پاکستان، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، ایک ایسے بحران کا سامنا کر رہا ہے جس میں آبادی کی رفتار اقتصادی ترقی، سماجی خدمات، اور بنیادی ڈھانچے سے آگے نکل رہی ہے۔
ملک کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور سالانہ شرحِ تولید 2.55 فیصد ہے، جو کہ اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس صورت حال نے صحت، تعلیم، رہائش اور روزگار کے نظام پر دباؤ کو بڑھا دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ نہ صرف عوامی وسائل کو محدود کر رہا ہے بلکہ عدم مساوات اور شہری علاقوں میں گنجان آبادی کے مسائل کو بھی بڑھا رہا ہے، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر موجودہ رجحانات پر قابو نہ پایا گیا تو 2050 تک پاکستان کی آبادی 40 کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس قدر اضافہ خوراک کی قلت، پانی کی کمی، اور موسمیاتی خطرات کو مزید بڑھا دے گا، خاص طور پر ایسے ملک میں جو پہلے ہی قدرتی آفات اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی اور تولیدی صحت سے متعلق سابقہ وعدوں کے باوجود، پاکستان کی حکومتیں اب تک کوئی دیرپا اور مؤثر پالیسی نافذ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطے کی کمی، اور مانع حمل کے بارے میں سماجی جھجک نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جس کے باعث آبادی میں اضافہ ایک خاموش بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے۔شہباز شریف نے اور کیا کہا؟
شہباز شریف نے کابینہ کے اجلاس کے دوران کہا، ''ضرورت اس بات کی ہے کہ منصوبہ بندی کی جائے تاکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو معیشت کا فعال حصہ بنایا جا سکے‘‘۔
انہوں نے آبادی پر قابو پانے کے لیے ایک مؤثر پالیسی اور حکمت عملی تیار کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔وزیرِاعظم نے کہا کہ ملک کی بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنہیں انہوں نے''قومی اثاثہ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’نوجوانوں کو ملکی معیشت میں حصہ ڈالنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے متعدد اقدامات جاری ہیں۔
‘‘انہوں نے خواتین کی معاشی شمولیت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا، ''خواتین ہماری افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ ہیں، ان کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔‘‘
اجلاس میں حکام نے آبادی سے متعلق مسائل اور ان کے اثرات پر قابو پانے کے لیے ایک جامع قومی پالیسی مرتب کرنے کی تجویز دی، جس میں صوبائی حکومتوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ ماضی میں پاکستان نے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ایک مؤثر اور قومی سطح کی مہم چلائی تھی،''بچے دو ہی اچھے‘‘۔ جو کہ ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ پر بہت عام تھی اور عوامی شعور میں گہرائی تک رچی بسی تھی۔ تاہم،مذہبی مخالفت اور سیاسی جھجک کے باعث ریاست نے اس مہم کو خاموشی سے ختم کر دیا اور ٹکراؤ کے بجائے خاموشی اختیار کر لی۔
ج ا ⁄ ص ز (خبر رساں ادارے)