14 اگست اور لاہور: آزادی کے خواب سے حقیقت تک کا سنگ میل

جمعہ 8 اگست 2025 21:30

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 اگست2025ء) 14اگست یومِ آزادی پاکستان ہر سال نہ صرف وطن عزیز کی آزادی کا جشن بن کر آتا ہے بلکہ یہ دن ہمیں ان عظیم قربانیوں کی یاد بھی دلاتا ہے جن کے باعث یہ مملکتِ خداداد دنیا کے نقشے پر ابھری۔ ان عظیم قربانیوں اور تاریخی لمحوں میں ایک شہر ایسا ہے جو تحریک پاکستان کے ہر مرحلے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور وہ شہر ہے ’’لاہور‘‘، جسے بجا طور پر ’’زندہ دلوں کا شہر‘‘ اور ’’روحِ پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔

قیام پاکستان کی جدوجہد کا سب سے اہم اور فیصلہ کن مرحلہ 23 مارچ 1940 کو پیش آیا، جب آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منٹو پارک لاہور (موجودہ مینار پاکستان) پر قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا اور اسی قرارداد کی بنیاد پر بعد ازاں 14 اگست 1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

(جاری ہے)

لاہور نہ صرف تحریک پاکستان بلکہ برصغیر کی مجموعی سیاسی تاریخ میں ایک فعال مرکز رہا ہے۔ یہی وہ شہر ہے جہاں مسلمانوں کی سیاسی شعور بیداری کی مہم نے زور پکڑا۔ علامہ محمد اقبال کا فکر انگیز خطبہ الہ آباد، جو علیحدہ مسلم ریاست کے نظریے کی بنیاد بنا، اسی شہر کی فکری فضا کا نتیجہ تھا۔ بعد ازاں قائداعظم نے بھی لاہور میں جلسے، تقاریر اور قائدانہ حکمت عملی سے تحریک میں نئی روح پھونک دی ۔

برصغیر کے علمی، ادبی اور ثقافتی مراکز میں لاہور کو منفرد مقام حاصل رہا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی اور دیگر ادارے ایسے علمی قلعے تھے جنہوں نے تحریک آزادی کے لیے باشعور طلبا، استاد، ادیب اور کارکن پیدا کیے۔ لاہور سے نکلنے والے اخبارات اور رسائل نے قومی شعور اور سیاسی آگہی کو فروغ دیا۔ لاہور کی گلیوں، بازاروں اور میدانوں میں آزادی کے لیے نکالے جانے والے جلوس اور جلسے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔

یہاں کے لوگ نہ صرف جوش و خروش سے تحریک آزادی میں شریک ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بھی یہ ثابت کیا کہ لاہور تحریک پاکستان کا دل ہے۔1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت لاہور پنجاب کا سب سے بڑا اور حساس شہر تھا۔ شہر کی جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کے باعث اسے پاکستان میں شامل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی گئیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران یہاں خون کی ہولی کھیلی گئی، لیکن آخرکار یہ شہر پاکستان کا حصہ بنا اور آج بھی اس کی فضا میں وہی قربانیوں کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔

آج بھی 14 اگست کو لاہور میں یومِ آزادی کی سب سے بڑی اور پرجوش تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ مینارِ پاکستان کو خصوصی طور پر سجایا جاتا ہے، جہاں ہزاروں افراد قومی ترانوں، آتش بازی اور پرچم کشائی کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ زندہ دلانِ لاہور اپنے قومی جذبے اور جوش و خروش سے اس دن کو تاریخ میں زندہ رکھتے ہیں۔حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگی کشیدگی اور پاکستان کی کامیاب دفاعی حکمت عملی نے یومِ آزادی کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔

یہ معرکہ حق و باطل میں پاکستان کی فتح نہ صرف قوم کے عزم کو مزید جلا بخشتی ہے بلکہ یہ اس حقیقت کی تصدیق بھی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ محض سیاسی نہیں بلکہ وجودی ضرورت تھی۔ اس فتح نے دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان ایک پرامن، خوددار اور مضبوط ریاست ہے جو اپنے دفاع اور قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ لاہور تحریک پاکستان کا دل رہا ہے اور پاکستان کے وجود کی علامت ہے۔ اس شہر کی قربانیاں، خدمات، فکری قیادت اورآج بھی جاری جذبہ حب الوطنی اسے یومِ آزادی کے موقع پر مرکزِ توجہ بناتے ہیں۔14 اگست کا جشن ایک عہد کی تجدید ہے کہ یہ قوم اپنی آزادی، خودمختاری اور نظریاتی بنیادوں پر کبھی آنچ نہیں آنے دے گی۔