پاکستان کا مصنوعی ذہانت میں ترقی کا عزم، چیلنجز کیا ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 10 اگست 2025 12:00

پاکستان کا مصنوعی ذہانت میں ترقی کا عزم، چیلنجز کیا ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2025ء) پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں مصنوعی ذہانت کی ایک قومی پالیسی کی منظوری دی ہے جس کے تحت آئندہ پانچ برسوں میں دس لاکھ اے آئی کے پرفیشنلز تیار کیے جائیں گے اور قومی سطح پر ایک ہزار اے آئی پراڈکٹس تیار کی جائیں گی۔

پاکستان کا پہلا چیٹ بوٹ ’ذہانت اے آئی‘ کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت: کیا پاکستان کا تعلیمی شعبہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کا متحمل ہے؟

نامور سائنسدان اور پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئر مین ڈاکٹر عطا الرحمن نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا، لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے بنیادی تیاریوں کو لازمی قرار دیا: ''ایک مضبوط ادارہ جاتی نیٹ ورک درکار ہے۔

ہمارے پاس وہ معیاری اور پیشہ ورانہ فیکلٹی نہیں ہے جو اس خواب کو حقیقت میں بدل سکے۔

(جاری ہے)

اس فیکلٹی کو پہلے تیار کرنا ہوگا۔‘‘

سال دو ہزار سے دو ہزار دو تک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر عطا الرحمان کا مزید کہنا تھا، ''کچھ کوششیں کراچی یونیورسٹی اور ہری پور جیسی جامعات میں جاری ہیں، لیکن اس پالیسی کی کامیابی کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا، جو ان کوششوں کی قیادت اور ربط قائم کرے اور طلباء و پیشہ ور افراد کے لیے اسکالرشپس فراہم کرے۔

‘‘

اہم چیلنجز کیا ہیں؟

مصنوعی ذہانت کے حوالے سے حکومتی پالیسی پر عملدرآمد کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں اسلام آباد کی لمز یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور کئی اعلیٰ تعلیمی منصوبوں پر بطور ڈائریکٹر خدمات انجامد دینے والے ڈاکٹر سہیل نقوی کے مطابق، ''یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ حکومت کس قسم کی تربیت فراہم کرنا چاہتی ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ملک میں کچھ اچھی جامعات موجود ہیں جیسے پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، این ای ڈی، لمز، فاسٹ، کامسیٹس اور نسٹ، لیکن ایک بڑی تعداد میں تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو عام مضامین میں بھی معیاری تعلیم فراہم نہیں کر رہے، جدید ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت کی تعلیم دینا تو بہت دور کی بات ہے۔

‘‘

ڈاکٹر سہیل نقوی کے بقول، ''اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے بہت مضبوط جامعات کا جال بچھانا ضروری ہے۔‘‘

آئی ٹی انڈسٹری کے ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ پاکستان میں آئی ٹی کے گریجویٹس کو مصنوعی ذہانت کے میدان میں زیادہ تر صرف بنیادی سطح کی معلومات ہوتی ہیں اور ملازمت کے بعد کمپنیوں کوانہیں مزید تربیت دینا پڑتی ہے تاکہ اُن کی صلاحیتوں کو نکھارا جا سکے۔

شیخ عبدالقادر، جو ایک آئی ٹی کمپنی چلاتے ہیں اور پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کی مصنوعی ذہانت کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کے پاس بنیادی معلومات ہوتی ہیں، لیکن اُنہیں مہارت بڑھانے کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

حکومت کے مصنوعی ذہانت کے ایک ملین ماہرین پیدا کرنے کے ہدف پر انہوں نے کہا، ''اتنے بڑے پیمانے پر ماہر تیار کرنے کے لیے ایک پروگرام شروع کرنا ہوگا جس میں تربیت دینے والوں کو تربیت دی جائے، کیونکہ ہمیں ایک بڑی تعداد میں ٹرینرز کی ضرورت ہوگی۔

‘‘ ان کی تجویز ہے غیر ممالک سے تربیت حاصل کر کے لوٹنے والے افراد اس میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں: ''جامعات میں بیرونِ ملک سے تعلیم یافتہ اساتذہ موجود ہیں، اور اُنہیں اس مقصد کے لیے شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ٹرینرز تیار کیے جا سکیں، اور ملک میں ایک ملین مصنوعی ذہانت کے ماہرین تیار کرنے کا خواب یقینی طور پر حقیقت بن سکتا ہے۔

‘‘

کیا پاکستان مقامی اے آئی پراڈکٹس تیار کر سکتا ہے؟

آئی ٹی ماہرین پاکستان میں قومی ڈیجیٹل ڈیٹا اور مقامی سافٹ ویئر ایکو سسٹم کی شدید کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل نقوی کے مطابق، ''چیٹ جی پی ٹی جیسے نظام اس لیے کام کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وسیع ڈیجیٹل ڈیٹا موجود ہوتا ہے، لیکن پاکستان کے پاس نہ ایسا ڈیٹا ہے، نہ ہی کمپنیاں جو اسے استعمال کر سکیں۔

جب تک ہم اپنا ڈیٹا ڈیجیٹل نہیں کرتے، مقامی سطح پر اے آئی مصنوعات ممکن نہیں۔‘‘

انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کامیاب ممالک نے اپنے ثقافتی تقاضوں کے مطابق ڈیٹا سے بھرپور ماحول بنایا ہے: ''چین نے اپنے لیے اے آئی حل تیار کیے ہیں، جبکہ ہم غیر ملکی نظاموں سے ایسے جوابات لیتے ہیں جو ہماری ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ہماری ثقافت ڈیجیٹل طور پر مٹ رہی ہے کیونکہ ہم نے اسے ڈیٹا کی صورت میں محفوظ ہی نہیں کیا۔‘‘

تاہم پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کی مصنوعی ذہانت کمیٹی کے سربراہ شیخ عبدالقادر کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ ''ڈیپ‘‘ منصوبے کے تحت عوامی ڈیٹا کو ڈیجیٹائز کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر سہیل نقوی نے اس حوالے موجودہ تعلیمی اداروں کو درپیش شدید مالی مشکلات کی جانب بھی توجہ دلائی اور سوال اٹھایا کہ حکومت اپنے نئے مصنوعی ذہانت کے وژن کے لیے فنڈز کہاں سے لائے گی؟ ''زیادہ تر جامعات پہلے ہی وسائل کی شدید کمی کا شکار ہیں، اور ہم وظائف کی بات کرتے ہیں جب کہ مستحکم اداروں کو بھی ٹھیک طرح سے سپورٹ نہیں کر پا رہے۔

‘‘

ڈاکٹر نقوی نے خبردار کیا کہ اگر ڈیٹا کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ نہ دی گئی تو اے آئی پالیسی محض بیان بازی ثابت ہوگی۔

اگرچہ پاکستان میں ہر سال پچاس سے پچھتر ہزار اے آئی اور آئی ٹی گریجویٹس مارکیٹ میں آتے ہیں، بعض ماہرین مہارت اور طلب میں خلا کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تاہم عبدالقادر کے مطابق عالمی سطح پر اے آئی ماہرین کی مانگ ہے اور یہ افراد فری لانسنگ یا بین الاقوامی کمپنیوں کے ذریعے زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔