یوکرین روس تنازغ: زیلنسکی‘ کیئر سٹارمر‘ ایمانوئل میخوان، جرمن چانسلر اور دیگر یورپی راہنما آج ٹرمپ سے ملاقات کریں گے

وائٹ ہاﺅس میں یورپی راہنماﺅں سے ملاقات میں امریکی صدر کی پوٹن سے ملاقات اور جنگ بندی پر بات چیت کی جائے گی‘برطانیہ‘فرانس اور جرمنی کے سربراہان کے ساتھ نیٹوکے سیکرٹری بھی ملاقات میں شریک ہونگے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 18 اگست 2025 13:57

یوکرین روس تنازغ: زیلنسکی‘ کیئر سٹارمر‘ ایمانوئل میخوان، جرمن چانسلر ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 اگست ۔2025 ) یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اوربرطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر، فراسیسی صدر ایمانوئل میخوان، جرمن چانسلر میرز اور دیگر یورپی راہنما آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاﺅس میں ملاقات کریں گے امریکہ اورروس کے صدور کے درمیان ملاقات کے بعد آج کی بات چیت یوکرین کے مستقبل اور پورے یورپ کی سلامتی کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے.

(جاری ہے)

روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات توقعات کے مطابق رہی جس میں جنگ بندی اور پابندیاں کا کوئی اعلان نہیں ہوسکا تھا واشنگٹن میں صدر زیلنسکی کے ہمراہ برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر، فراسیسی صدر ایمانوئل میخوان، جرمن چانسلر میرز اور دیگر راہنماﺅں کی موجودگی کا مقصد محض اس بات کو یقینی بنانا نہیں کہ زیلنسکی سے ساتھ دوبارہ اوول آفس میں 28 فروری جیسا سلوک نہ ہو.

یورپی راہنما ڈونلڈ ٹرمپ کو دو چیزوں پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے جن میں یوکرین کی براہ راست شمولیت کے بغیر یوکرین کے لیے کوئی امن معاہدہ نہیں ہو سکتا اور دوسرا ایسے کسی بھی امن معاہدے کو سکیورٹی ضمانتوں کی حمایت حاصل ہونی چاہیے یورپی راہنماﺅں کی خواہش ہے کہ وہ امریکی صدر کو یہ دکھا سکیں کہ یوکرین اور یورپ متحد ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بے چین ہیں کہ صدر ٹرمپ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات سے متاثر ہو کر روسی راہنماﺅں کے مطالبات تسلیم نہ کر لیں.

برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمرکو اچھا سفارت کار سمجھا جاتا ہے اور ان کے صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور ایک ماہ کے بعد ٹرمپ برطانیہ کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں ملاقات میںنیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے بھی شامل ہیں مارک بھی صدر ٹرمپ کے قریب سمجھے جاتے ہیں تاہم امریکی صدر بظاہر اپنے فرانسیسی ہم منصب میخوان کو زیادہ پسند نہیں کرتے اور وائٹ ہاﺅس نے حال ہی میں ان کی جانب سے اقوام متحدہ کی اگلی جنرل اسمبلی کے موقع پر غیر مشروط طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر سخت تنقید کی تھی.

یورپی راہنما بارہا کہہ چکے ہیں کہ بین الاقوامی سرحدوں کو طاقت سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور صدر زیلنسکی بار بار کہ چکے ہیں وہ روس کے قبضے میں موجود یوکرینی سرزمین کے دعوے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس کے علاوہ یوکرین کا آئین بھی انہیں ایسا کرنے سے منع کرتا ہے. روسی صدر پوٹن ڈونباس کا مکمل کنٹرول چاہتے ہیں جس کا تقریباً 85 فیصد حصہ پہلے ہی روس کی افواج کے کنٹرول میں ہے اور وہ کریمیا واپس کرنے کا بھی قطعی طور پر کوئی ارادہ نہیں رکھتے ادھر یورپی تجزیہ نگار بھی اب یوکرین سے کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ کیف کو کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ دینا ہوگا بدلتے حالات سے لگتا ہے کہ یورپی اتحادی ماسکو کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں یورپی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یوکرین امریکہ سے آرٹیکل 5 جیسی حفاظتی ضمانتیں حاصل کر پائے جن کے بارے میں اب بات کی جا رہی ہے جو مستقبل میں کسی بھی قسم کی روسی جارحیت کو روکنے کے لیے کافی ہو اور اس کے نتیجے میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر اپنی آزادی کی حفاظت کر پائے تو یہ بھی اس کے لیے فتح ہوگی.