صدر ٹرمپ کا ڈاک ووٹنگ اور ووٹنگ مشینوں کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا عندیہ

آئین کے مطابق انتخابات ریاستی معاملہ ہے ‘یہ اقدام ریاستوں کی جانب سے قانونی چیلنجز کو جنم دے سکتا ہے.ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 19 اگست 2025 15:35

صدر ٹرمپ کا ڈاک ووٹنگ اور ووٹنگ مشینوں کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 اگست ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے وسط مدتی انتخابات سے قبل بذریعہ ڈاک ووٹنگ اور ووٹنگ مشینوں کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا عہد کیا ہے، یہ اقدام ریاستوں کی جانب سے قانونی چیلنجز کو جنم دے سکتا ہے. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے ”ٹروتھ سوشل“پر ایک پیغام میں لکھا کہ میں بذریعہ ڈاک ووٹنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک تحریک کی قیادت کرنے جا رہا ہوں اور ساتھ ہی بہت مہنگی اور متنازع ووٹنگ مشینوں کو بھی ختم کریں گے.

(جاری ہے)

انہوں نے یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ وائٹ ہاﺅس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران بھی اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے اسے مہنگا اور ناقابل اعتماد طریقہ کار قراردیا‘واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 کے انتخابات میں اپنے جیتنے کا دعویٰ کیا تھا انہوں نے بذریعہ ڈاک ووٹنگ کی سیکیورٹی پر ہمیشہ شک ظاہر کیا ہے اور اپنے ہم خیال ری پبلکنز کو امریکا کے انتخابی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے زور دیتے رہے تھے.

تاہم صدر ٹرمپ کی ریاست فلوریڈا سمیت کچھ ری پبلکن ریاستوں نے ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کو ایک محفوظ، آسان طریقہ کے طور پر اپنایا ہے تاکہ ووٹرز کی شرکت میں اضافہ ہو سکے، ٹرمپ نے پچھلے انتخابات میں ڈاک کے ذریعے ووٹ دیا اور اپنے حامیوں کو 2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے ایسا کرنے کی ترغیب دی تھی. امریکی الیکشن اسسٹنس کمیشن کے مطابق 2020 میں کووڈ وبا کے دوران امریکا میں بذریعہ ڈاک ووٹنگ کی تعداد ریکارڈ بلند سطح پر پہنچ گئی تھی کیونکہ ریاستوں نے ووٹرز کے لیے مزید آپشنز فراہم کیے تھے لیکن 2024 میں ان کی تعداد کم ہو گئی تھی کمیشن کے مطابق 2024 کے عام انتخابات میں دو تہائی سے زیادہ ووٹرز نے ذاتی طور پر ووٹ ڈالا جبکہ تقریباً تین میں سے ایک ووٹ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے.

امریکا کی 50 ریاستیں علیحدہ علیحدہ انتخابات کراتی ہیں لیکن ٹرمپ نے انہیں خبردار کیا کہ وہ وفاقی حکومت کی ہدایات کے مطابق عمل کریں ٹرمپ نے لکھا کہ یاد رکھیں وفاقی حکومت کے لیے ووٹوں کی گنتی ریاستیں محض ”ایجنٹ“ ہیں انہیں وہی کرنا چاہیے جو وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے امریکا کے صدر ملک کی بھلائی کے لیے کہتے ہیں. دوسری جانب امریکی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صدر محض ایک ایگزیکٹو آڈرسے ڈاک کے ذریعے ووٹنگ اور انتخابات میں الیکٹرانک مشینوں کے استعمال پر پابندی عائد نہیں کرسکتے کیونکہ امریکی آئین کے مطابق انتخابات ریاستی معاملہ ہے اور ساری ریاستیں اپنے اپنے قوانین اور ضوابط کے مطابق انتخابات کرواتی ہیں ‘بعض امریکی ریاستوں میں الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹ پر مکمل پابندی ہے جبکہ کئی ریاستوں میں بیلٹ اور مشینوں دونوں کا استعمال کیا جاتا ہے تو کئی ریاستیں مکمل طور پر بیلٹ کا استعمال کرتی ہیں .

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صدر کو پہلے اپنے آئینی اور قانونی مشیروں سے مشاورت کرنی چاہیے کیونکہ امریکا میں انتخابات کا کوئی مرکزی ادارہ موجود نہیں ‘آئین کے تحت ریاستیں اپنے اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں انتخابات کروانے کی پابند ہیں اور اس کے لیے ریاستوں میں مختلف طریقہ کار رائج ہیں کئی ریاستوں میں ووٹرکے لیے شہری ہونا بھی لازم نہیں جبکہ ایک سے زائد ریاستوں میں ایک رات کے قیام سے مستقل رہائشی کا اسٹیٹس اور ووٹ کے حق کا قانون موجود ہے .

ادھر سوئیڈن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس کے مطابق کینیڈا سے لے کر جرمنی اور جنوبی کوریا تک تقریباً تین درجن ممالک کسی نہ کسی شکل میں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی اجازت دیتے ہیں، حالانکہ ان میں سے زیادہ تر کچھ پابندیاں لگاتے ہیں کہ کون سے ووٹرز اہل ہیں.