میری کہانی: امدادی کارکن سے پناہ گزین اور پھر وطن واپسی

یو این منگل 19 اگست 2025 19:00

میری کہانی: امدادی کارکن سے پناہ گزین اور پھر وطن واپسی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 اگست 2025ء) سوڈان میں جاری جنگ نے لاکھوں زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ ان میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے 'اوچا' کے لیے کام کرنے والے آدم ابراہیم بھی شامل ہیں جنہیں مددگار کے بجائے مدد کا خواستگار بننا پڑا۔

19 اگست کو امدادی کارکنوں کے عالمی دن پر آدم ابراہیم نے یو این نیوز کو بتایا کہ کیسے وہ امدادی کارکن سے بیرون ملک پناہ گزین بنے اور پھر دوبارہ سوڈان میں آئے ہیں۔

ریاست وسطی ڈارفر کے دارالحکومت زالنجی کے رہنے والے آدم بتاتے ہیں کہ اپریل 2023 میں ایک روز وہ اپنی بیٹی کو سکول کے امتحان کی تیاری کروا رہے تھے کہ انہیں فائرنگ کی آواز سنائی دی اور حالات بگڑنے لگے۔ اس کے بعد جلد ہی پورا شہر میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔

(جاری ہے)

لڑائی کے باعث علاقے میں افراتفری پھیل گئی۔ بجلی اور انٹرنیٹ کی ترسیل میں خلل آنے کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح 'اوچا' کو تازہ ترین حالات سے آگاہ کرتے رہے۔

39 یوم تک ان کا خاندان اسی علاقے میں مقیم رہا جس کے بعد انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔

اقوام متحدہ کے مطابق، سوڈان کو دنیا میں انتہائی پیچیدہ انسانی بحران کا سامنا ہے جہاں تین کروڑ 40 لاکھ لوگوں یا ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کا انحصار انسانی امداد پر ہے۔ ملک کو رواں سال درکار امدادی وسائل میں سے اب تک 13.3 فیصد ہی مہیا ہو پائے ہیں۔ ان حالات میں جنگ سے تباہ حال لاکھوں لوگوں کو اپنی بقا کی جدوجہد کا سامنا ہے۔

© UNOCHA/Adam Ibrahim
آدم یوگنڈا میں اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ۔

بے گھری کا دکھ

آدم ڈارفر اور جنوبی سوڈان سے ہوتے ہوئے یوگنڈا پہنچے جہاں پناہ گزین کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہونے کے بعد انہوں نے قدرے اطمینان محسوس کیا۔ تاہم تلخ حقیقت یہ تھی کہ کبھی وہ جن لوگوں کو مدد فراہم کیا کرتے تھے آج انہی کے ساتھ خود مدد کے منتظر تھے۔

چند ماہ کے بعد آدم کو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے خاندان کو یوگنڈا میں چھوڑا اور واپس زالنجی میں آ گئے جہاں ان کا گھر لوٹ مار کے بعد تباہ کر دیا گیا تھا۔

گولیوں سے چھلنی دیواریں دیکھ کر اور اپنے ضروری کاغذات گمشدہ پا کر انہیں شدید دھچکا لگا۔

علاقے میں 15 سالہ بچوں سمیت ہر شخص ہتھیار اٹھائے پھر رہا تھا۔ لوگ دباؤ کا شکار اور خوفزدہ تھے جو ہر وقت تشدد کی آئندہ لہر کے لیے تیار رہتے تھے۔

جلد انہیں 'اوچا' کی جانب سے امدادی کارروائیوں کے لیے مغربی ڈارفر کے شہر الغنینہ میں بلا لیا گیا جہاں حالات اور بھی خراب تھے۔

اس علاقے میں آبادیاں نذر آتش کر دی گئی تھیں، راستے فوجی گاڑیوں سے اٹے تھے اور ہر جگہ مسلح افراد گشت کر رہے تھے۔ علاقے میں خوراک، ادویات، پانی، پناہ اور تحفظ کی شدید قلت تھی جبکہ امدادی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل انتہائی ناکافی تھے۔

© Avaaz/Giles Clarke
خرطوم کے فیڈل ہسپتال کے باہر تباہ حال گاڑیاں۔

امید کی کرن

'اوچا' اور اس کے شراکتی ادارے امدادی وسائل کی شدید قلت کے باوجود گزشتہ دو سال میں آٹھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ضروری مدد پہنچائی ہے جو تشدد سے جان بچا کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور اب ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے اس مدد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

آدم نے دوبارہ 'اوچا' کے لیے کام کرتے ہوئے چاڈ کی سرحد سے امدادی قافلے سوڈان میں لانے میں مدد دی جن سے ڈارفر میں پھنسے لوگوں کی مشکلات میں قدرے کمی آئی۔

وہ آج بھی سوڈان میں موجود ہیں جبکہ ان کا خاندان یوگنڈا میں ہے۔ وہ سال میں ایک ہی مرتبہ اپنے بچوں سے مل سکتے ہیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ قربانی دینا ضروری ہے۔ اپنے خاندان کو دور چھوڑ کر آنا تکلیف دہ فیصلہ تھا لیکن ان کے تحفظ اور دوسرے لوگوں کو مدد پہنچنے کے لیے انہوں نے یہ مشکل قدم اٹھایا اور اس پر قائم ہیں۔