افغانستان: ایک ڈاکٹر کی کہانی جب زلزلے نے پہاڑ ہلا دیے تھے

یو این پیر 8 ستمبر 2025 21:15

افغانستان: ایک ڈاکٹر کی کہانی جب زلزلے نے پہاڑ ہلا دیے تھے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 ستمبر 2025ء) زلزلے کا پہلا جھٹکا آیا تو ڈاکٹر عبدالمتین ساہاک بستر سے گر پڑے۔ دوسرے جھٹکے میں وہ لڑھک کر اپنے فون کے پاس پہنچ گئے۔ یہ گزشتہ اتوار کو تقریباً نصف شب کا وقت تھا جب افغانستان کے مشرقی علاقے میں پہاڑی وادیاں 6.0 شدت کے زلزلے سے لرز اٹھیں۔

اُس وقت عبدالمتین جلال آباد میں اپنے گھر پر تھے جو زلزلے کے مرکز سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

زلزلے کے ابتدائی جھٹکوں سے سنبھلنے کے فوری بعد انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ آٹھ بچوں کو کمروں سے نکال برآمدے میں پہنچا دیا۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ زلزلے کے اثرات شدید ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس لمحے انہیں تقریباً دو سال پہلے ہرات میں آنے والا زلزلہ یاد آ گیا جس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی تھی۔

(جاری ہے)

جلال آباد کے رہائشی ہونے کے ناطے انہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ اس نئی تباہی سے شمال مشرقی علاقوں کے لوگوں کو کس قدر نقصان ہو سکتا ہے جو دشوار گزار علاقوں میں بڑے خاندانوں کی صورت میں اکٹھے رہتے ہیں۔

زلزلہ آیا تو چند ہی لمحوں میں مٹی اور لکڑی سے بنے ان کے گھر زمین بوس ہو گئے۔ ملبے نے سڑکوں کو ڈھک لیا اور پورے کے پورے خاندان نیند میں ہی ملبے تلے دفن ہو گئے۔

ڈاکٹر عبدالمتین عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مقامی دفتر کے سربراہ ہیں۔ زلزلہ آنے کے فوری بعد وہ اپنے ہیلتھ کلسٹر واٹس ایپ گروپ کی طرف متوجہ ہوئے جو خطے بھر کے طبی مراکز اور امدادی تنظیموں کو آپس میں جوڑتا ہے۔

اسی دوران زلزلے سے ہونے والی تباہی کے بارے میں اطلاعات آنا شروع ہو گئیں۔ انہیں بتایا گیا کہ ہمسایہ صوبہ اسعد آباد بری طرح متاثر ہوا ہے جہاں بہت سے لوگ زخمی تھے اور ہر جانب سے فون پر مدد کے لیے کہا جا رہا تھا۔ رات ایک بجے تک ہنگامی مدد طلب کرنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی۔

© WHO

ہولناک تباہی

انہوں نے 'ڈبلیو ایچ او' کی ٹیم کو ہدایت دی کہ وہ جلال آباد میں تنظیم کے امدادی گودام میں ان سے ملاقات کریں۔

جب وہ اور ان کے ساتھی اندھیرے میں گاڑی چلاتے ہوئے گودام کی جانب جا رہے تھے تو بارش شروع ہو گئی۔ مون سون کی یہ بارش چند ہی گھنٹوں میں ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ سے لے کر ایمبولینس گاڑیوں کی آمد و رفت تک سب کچھ مزید مشکل بنا دینے والی تھی۔

جلد ہی امدادی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ 'ڈبلیو ایچ او' کے گودام سے ایک ٹرک میں طبی امدادی سامان لادا گیا، پھر اسے جلال آباد کے ہوائی اڈے پر منتقل کیا گیا جو پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔

وہاں سے وزارت دفاع کے ایک ہیلی کاپٹر نے امدادی سامان کے ڈبے ضلع نورگل کی جانب روانہ کیے جو زلزلے کا مرکز ہے۔

ڈاکٹر عبدالمتین بتاتے ہیں کہ خوشی قسمتی سے وہ جلد ہی ان علاقوں میں پہنچ گئے جو زلزلے سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔

ان کی ابتدائی فیلڈ ٹیم صرف چار افراد پر مشتمل تھی۔ چند ہی گھنٹوں میں، انہوں نے دو مقامی این جی اوز سے تعلق رکھنے والے افغان عملے کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا اور 18 ڈاکٹروں، نرسوں اور فارماسسٹ پر مشتمل ایک ٹیم تیار کی۔

ان میں چھ خواتین ڈاکٹر اور دائیاں بھی شامل تھیں۔ ان کی کاوشوں سے پہلے ہی دن 'ڈبلیو ایچ او' نے نورگل میں ہوائی جہاز کے ذریعے 23 میٹرک ٹن ادویات بھیجنے میں کامیابی حاصل کی۔

ادھر زخمیوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ خبریں آ رہی تھیں کہ غالباً 500 یا 600 لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ پانچ روز کے بعد سرکاری اعداد و شمار کہیں زیادہ ہولناک نکلے جن کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں 2,200 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی، 3,640 افراد زخمی ہوئے اور 6,700 گھر تباہ ہو گئے۔

'میرا بچہ کہاں ہے'

ڈاکٹر عبدالمتین کو متاثرہ علاقوں میں اس قدر شدید تباہی کی توقع نہیں تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے سڑکوں پر لاشیں پڑی دیکھیں۔ قریبی اضلاع سے آنے والے رضاکار امدادی کارکن ملبہ صاف کر رہے تھے، زخمیوں کو اٹھا رہے تھے اور جاں بحق افراد کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔

زندہ بچ جانے والوں میں 60 سالہ محمد بھی شامل تھے جس کا گھر تباہ ہو گیا تھا۔

وہ اس گھر میں 30 افراد پر مشتمل اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے جن میں 22 زلزلے کی نذر ہو گئے۔ عبدالمتین بتاتے ہیں کہ یہ ان کے لیے اس قدر دل دہلا دینے والا لمحہ تھا کہ وہ اس شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کر سکے۔

مقامی کلینک کی دیواریں زلزلے سے متاثر ہوئی تھیں لیکن وہاں بھی طبی عملہ مریضوں کا علاج کر رہا تھا جن کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔

وہاں ان کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جسے کئی چوٹیں آئی تھیں اور ان کے جسم کی کئی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ اس کے لیے سانس لینا بھی مشکل تھا اور وہ مسلسل روتے ہوئے اپنے بچے کو پکار رہی تھی جو اس کے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ زلزلے میں ہلاک ہو گیا تھا۔

© WHO

صنفی قوانین کا 'عارضی' خاتمہ

افغانستان میں کڑے صنفی قوانین کو اس زلزلے نے عارضی طور پر توڑ ڈالا۔

ڈاکٹر عبدالمتین نے بتایا کہ زلزلہ آنے کے بعد مردوخواتین سبھی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر رہے تھے۔ افغانستان میں خواتین ڈاکٹروں اور دائیوں کو اب بھی کام کرنے کی اجازت ہے، لیکن ان کے لیے ہسپتال جاتے ہوئے کسی مرد رشتہ دار کو ساتھ رکھنا ضروری ہے۔

تاہم، ان کا کہنا ہے کہ 2021 میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار میں آنے کے بعد پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد ملک چھوڑ چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ماہر خواتین معالج ڈھونڈنا آسان نہیں۔ اس بحران کا اثر ان کے اپنے گھر تک بھی پہنچا۔ ان کی بڑی بیٹی کابل میں میڈیکل سکول کے پانچویں سال میں تھیں جب طالبان حکومت نے خواتین کو اعلیٰ تعلیم سے روک دیا۔

عبدالمتین بتاتے ہیں کہ بدقسمتی سے اب وہ گھر پر ہے اور اس کے پاس اپنی تعلیم مکمل کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔

اہلخانہ کا خوف

زلزلہ آیا تو 'ڈبلیو ایچ او' نے طبی مراکز کو فعال رکھنے، عملےکو تکنیکی رہنما، طبی سازوسامان اور واضح ہدایات فراہم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔

جب وہ مقامی ڈاکٹروں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے تو ان کا خاندان جلال آباد میں سخت پریشانی کے عالم میں خبریں سن رہا تھا۔ وہ زندگی بھر افغانستان میں ہسپتالوں کا نظام سنبھالتے اور ہنگامی اقدامات کی قیادت کرتے رہے ہیں مگر یہ آفت ان کے اپنے گھر کے بہت قریب آ گئی تھی۔

جب وہ اپنی بیوی اور بچوں کے پاس واپس پہنچے، تو سب سے پہلے ان کی 85 سالہ والدہ نے ان کا استقبال کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ والدہ نے انہیں دس منٹ تک گلے لگائے رکھا اور نرمی سے انہیں ڈانٹ کر وعدہ لینے کی کوشش کی کہ وہ دوبارہ متاثرہ علاقوں میں نہیں جائیں گے۔ تاہم، نورگل، چوکئی، درہ نور اور علنکار جیسے غریب اضلاع میں ہزاروں افراد اپنی بقا کے لیے 'ڈبلیو ایچ او' پر ہی انحصار کر رہے تھے اسی لیے اگلی صبح، وہ دوبارہ متاثرہ علاقوں کی جانب روانہ ہو گئے۔

© WHO

زندگی و موت کا کھاتہ

جمعہ کی دوپہر ڈاکٹر عبدالمتین کے رجسٹر میں درج اعداد و شمار اس ہنگامی صورت حال کی مکمل کہانی سنا رہے تھے: 46 میٹرک ٹن طبی سامان متاثرہ علاقوں میں پہنچایا جا چکا تھا، لیکٹیٹ، گلوکوز اور سوڈیم کلورائیڈ کی 15,000 سے زیادہ بوتلیں تقسیم کی جا چکی تھیں۔

'ڈبلیو ایچ او' کی 17 نگران ٹیموں کو متاثرہ علاقوں میں تعینات کیا جا چکا تھا تاکہ بیماریوں کا سراغ لگایا جا سکے کیونکہ پانی کا نظام تباہ ہو جانےکے باعث متاثرہ علاقوں میں کئی طرح کے امراض پھیلنے کا خدشہ ہے۔

اب تک تقریباً 800 شدید زخمی مریضوں کو جلال آباد کے ہسپتال منتقل کیا جا چکا ہے۔ دیگر مریضوں کو اسعد آباد میں واقع علاقائی ہسپتال لے جایا گیا۔

'ڈبلیو ایچ او' نے زلزلے سے متاثرہ افراد کے لیے ضروری طبی امداد اور متحرک طبی خدمات کو وسعت دینے کے لیے 4 ملین ڈالر امداد کی اپیل کی ہے۔

ایک ماں کے الفاظ

ڈاکٹر عبدالمتین نے اسعد ہسپتال کے باہر ایک معمر خاتون اور اس کی نوجوان بیٹی کو دیکھا جو دھوپ کی تمازت سے بچنے کے لیے ایک دیوار کے سائے میں بیٹھی تھیں۔

وہ زلزلے میں زندہ بچ گئی تھیں لیکن ان کے باقی 13 رشتہ دار ہلاک ہو گئے تھے۔

انہیں ہسپتال سے لینے کوئی نہیں آیا تھا جبکہ خاتون کی بیٹی غم سے نڈھال اور مسلسل روئے جا رہی تھی۔

ڈاکٹر عبدالمتین نے ہسپتال کی انتظامیہ سے درخواست کی کہ انہیں ایک یا دو ہفتے کے لیے ہسپتال میں رہنے کی اجازت دی جائے جسے قبول کر لیا گیا۔

اس رات جب وہ اپنے گھر واپس آئے تو انہوں نے اپنے خاندان کو یہ بات بتائی جسے سن کر سبھی رونے لگے۔ ایسے میں ان کی والدہ بولیں 'براہ کرم وہاں جاؤ اور لوگوں کی مدد کرو'۔