تشدد کی ستائش اور قانون کی حکمرانی کمزور کرنا قابل مذمت، وولکر ترک

یو این پیر 8 ستمبر 2025 22:30

تشدد کی ستائش اور قانون کی حکمرانی کمزور کرنا قابل مذمت، وولکر ترک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے تشدد کو قابل قبول و قابل ستائش قرار دینے اور دنیا بھر میں بنیادی حقوق کو نقصان پہنچانے کے لیے کی جانے والی منظم کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب حقوق پر حملہ ہو تو کوئی بھی فرد محفوظ نہیں ہوتا۔

اس وقت دنیا بھر میں جنگی قوانین کو پامال کیا جا رہا ہے اور بعض ریاستیں اپنے حکمرانوں کی نجی طاقت کا تسلسل بنتی جا رہی ہیں۔

Tweet URL

جنیوا میں کونسل کے سالانہ اجلاس کے آغاز پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں فوجی پریڈ جیسے مظاہروں سے لے کر سیاسی رہنماؤں کی جنگی بیان بازی تک کئی شکل میں ہر جا جنگ کے حق میں پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)

بدقسمتی سے نہ تو امن کی کوئی پریڈ ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں امن کی کوئی وزارت ہے۔ ان حالات میں رکن ممالک کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی قانون کو لاحق بڑھتے ہوئے زوال کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہوں۔

ہائی کمشنر نے کثیرالجہتی معاہدوں کی اہمیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدے امن کی بنیاد ہیں اور عالمی نظام و روزمرہ زندگی سمیت بہت کچھ انہی پر منحصر ہے۔

عالمی نظام کو خطرہ

ہائی کمشنر نے کہا کہ آج حکومتیں قوانین پر مبنی عالمی نظام کو نظرانداز، بے توقیر اور غیرمتعلق کر رہی ہیں جو 1945 کے بعد ایک اور عالمی جنگ کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ جب ریاستیں قانون کی خلاف ورزی کو نظرانداز کرتی ہیں تو ایسے واقعات معمول بن جاتے ہیں۔ جب قانون کو غیر مستقل انداز میں لاگو کیا جاتا ہے تو اس سے ہر جگہ قانونی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔

وولکر ترک نے یمن میں اقوام متحدہ کے عملے کی غیر قانونی حراستوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے نظام پر براہِ راست حملہ قرار دیا۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے پیرس معاہدے اور متعدد عالمی اداروں بشمول کونسل سے علیحدگی کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ دیگر ممالک بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں۔

ہائی کمشنر نے ایسٹونیا، فن لینڈ، لٹویا، لیتھوانیا اور پولینڈ کی جانب سے بارودی سرنگوں کے خلاف اوٹاوا معاہدے سے دستبرداری کے فیصلے کے منفی نتائج سے بھی خبردار کیا۔

علاوہ ازیں، انہوں نے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کو بدنام کرنے کے نئے رجحان کی نشاندہی بھی کی جس پر تمام ممالک نے ایک دہائی قبل اتفاق کیا تھا۔

حقوق کی مخدوش صورتحال

ہائی کمشنر نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خراب صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی سے تقریباً مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے۔

ہیٹی روز بروز قانون شکنی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ نائجیریا میں بوکو حرام کی انتہا پسندی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے اور شام میں امن کی طرف منتقلی کا عمل تاحال نازک مرحلے میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین میں اب تک کے سب سے بڑے ڈرون حملے کے بعد روس کی عسکری کارروائی مزید مہلک ہو گئی ہے۔ سوڈان کے محصور شہر الفاشر پر مسلسل بمباری ہو رہی ہے جہاں مزید مظالم کا خدشہ ہے جبکہ میانمار میں فوجی بغاوت کے چار سال بعد بھی ملکی عوام کو اپنے حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے۔

ہائی کمشنر نے جمہوریہ کانگو کے مشرقی علاقے میں جاری کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں متحارب فریقین کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مصدقہ شواہد موجود ہیں جبکہ غزہ قبرستان بن چکا ہے جہاں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی شہریوں کا قتل عام جاری ہے۔

UN Geneva
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

قتل عام پر بے حسی

وولکر ترک نے سوال کیا کہ نسل کشی کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کہاں ہیں اور رکن ممالک مظالم کے خلاف مزید اقدامات کیوں نہیں کر رہے؟ انہیں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنی چاہیے کہ ان سے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے۔

مختلف ممالک کی صورتحال اور اہم عالمی مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی جانب سے چین میں ویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کی گئی کوششوں میں اب تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

مغربی افریقہ کے بعض ممالک میں ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد پر پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں، جہاں ہم جنس پرست تعلقات کو جرم قرار دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں، مہاجرین اور پناہ گزینوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔

پناہ گزینوں کی مشکل

ہائی کمشنر نے کہا کہ ایران اور پاکستان نے لاکھوں افغانوں کو زبردستی ان کے ملک واپس بھیج دیا ہے اور انڈیا نے بھی پناہ گزین روہنگیا گروہوں کو زمین اور سمندر کے راستے ملک بدر کیا ہے۔

اسی طرح، جرمنی، یونان، ہنگری اور دیگر یورپی ممالک نے بھی پناہ کی تلاش کے حق کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے ان خدشات کا ذکر بھی کیا جو امریکہ کی جانب سے تیسرے ممالک کے شہریوں کو ملک بدر کرنے کے مقصد سے ایل سلواڈور، جنوبی سوڈان، ایسواتینی، روانڈا اور دیگر ممالک کے ساتھ مبینہ معاہدوں کے حوالے سے پائے جا رہے ہیں۔

وولکر ترک نے حالیہ برسوں کے دوران کویت میں ہزاروں افراد کی شہریت منسوخ کرنے کا تذکرہ بھی کیا جس کے باعث بہت سے لوگ بے وطن ہو گئے ہیں۔

حقوق کا تحفظ

ہائی کمشنر نے افریقہ بھر میں ہونے والے آئندہ قومی انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کیمرون، آئیوری کوسٹ، گنی، ملاوی، گنی بساؤ، تنزانیہ اور یوگنڈا میں انتخابی تیاریوں پر سنگین خدشات کا اظہار کیا۔انہوں ںے ایتھوپیا کے حکام پر زور دیا کہ وہ آزادانہ، منصفانہ اور مشمولہ انتخابات کے لیے ضروری حالات کو یقینی بنائیں۔

انہوں نے تمام ممالک سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات کریں کہ ہر بچہ، چاہے وہ مستقبل کا کسان ہو، ڈیجیٹل ورکر، ڈاکٹر یا دکان دار، اپنے پیدائشی انسانی حقوق کا ادارک رکھتا ہو۔

خطاب کے آخر میں وولکر ترک نے کہا کہ دنیا بھر میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد انسانی حقوق اور آزادیوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جب حقوق پر حملہ ہوتا ہے تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہتا۔ کسی ایک گروہ کے خلاف زیادتی ہمیشہ ظلم کے ایک وسیع تر سلسلے کا حصہ ہوتی ہے جس سے بنیادی آزادیاں مجموعی طور پر زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔