اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 ستمبر 2025ء) خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رواں ماہ ایک رپورٹ شائع کی جس میں 1950 سے 1980 کے دوران جنوبی کوریا کی خواتین کا امریکی فوجیوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ان امریکی فوجیوں کو اس خطے میں شمالی کوریا کے حملوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔
ماہرین، تاریخ دان اور سماجی کارکنوں کے مطابق جنوبی کوریا کی ہزاروں خواتین کو حکومت کی اجازت سے مخصوص سرکاری قبحہ خانوں پر رکھا جاتا تھا اور ان کو بتایا جاتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں کو صرف 'مخصوص مشروبات‘ پیش کرنے جیسی خدمت سر انجام دیں گی مگر بعد میں انہیں امریکی فوجیوں کی جنسی تسکین کے لیے 'استعمال‘ ہونے پر مجبور کیا جاتا تھا۔(جاری ہے)
دو ہزار بائیس میں جنوبی کوریا کی سب سے بڑی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ان کی حکومت نے یہ قحبہ خانے، جنہیں انگریزی میں (بروتھلز) کہا جاتا ہے، غیر قانونی طور پر قائم کیے اور چلائے تھے۔ عدالت نے حکم دیا کہ متاثرہ خواتین کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا ازالہ کرنے کے لیے ان کو مالی معاوضہ ادا کیا جائے۔
متاثرہ خواتین کے وکلا کے بیان کے مطابق جنوبی کوریا کی ان خواتین میں سے سو سے زیادہ نے امریکی فوجی افسران کے خلاف ایک تاریخی مقدمہ دائر کیا ہے اور یہ پہلی بار ہے کہ متاثرہ خواتین نے براہِ راست امریکی فوج کے خلاف انصاف مانگا ہے۔
اس کے علاوہ ایک سو سترہ متاثرہ خواتین نے مقدمہ دائر کیا، جس میں انہوں نے جنوبی کوریا کی حکومت اور امریکی فوج کو فریق بناتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی زندگیوں کو تباہ کیا گیا ہے اور تمام متعلقہ اداروں کو ان سے معافی مانگنی چاہیے۔متاثرہ خواتین کی گواہیاں
اے ایف پی کو دیے گئے بیان میں جنوبی کوریا کی ایک متاثرہ خاتون نے بتایا، ''جب میں صرف سترہ سال کی تھی تو مجھے دھوکے سے جسم فروشی کے کام میں دھکیل دیا گیا۔
‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں ہر رات امریکی فوجیوں کے پاس بھیجھا جاتا، وہ انہیں اور دیگر خواتین کو مارتے پیٹتے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ مالی مشکلات کی وجہ سے یہ کام کرنے پر مجبور تھیں۔‘‘ ایک اور متاثرہ خاتون کا کہنا تھا، ''ہماری حکومت نے ہمیں ڈالرز کے عوض امریکی فوجیوں کی جنسی تسکین کے لیے ان کے آگے بیچ دیا تھا اور اب ہم ہمارے ساتھ ہونے والے اس ظلم کا حساب اور معافی چاہتی ہیں۔‘‘موجودہ صورتحال
متاثرہ خواتین اور ان کے ساتھ کھڑی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ جنوبی کوریا میں تعینات ''امریکی فوجیوں نے جنوبی کوریا کے آئین کو نظر انداز کیا، خواتین کی ذاتی آزادی چھین لی اور ان کی زندگیاں تباہ کر دیں۔‘‘
متاثرہ خواتین کے وکیل نے اے ایف پی کو بتایا، ''جنوبی کوریا کی حکومت اور امریکی فوج دونوں کو غیر قانونی عمل پر ایک ساتھ ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور ہر متاثرہ خاتون کو دس ملین وون جو کہ تقریباً 7,200 امریکی ڈالر بنتا ہے کا معاوضہ دیا جائے۔
‘‘موجودہ وقت میں تقریبا اٹھتالیس ہزار پانچ سو امریکی فوجی جنوبی کوریا میں موجود ہیں، ان کی وہاں موجودگی کا مقصد ملک کو ایٹمی ہتھیار رکھنے والے شمالی کوریا کے حملوں کے خطرے سے بچانا ہے۔