فوج فوج کرتے ہیں اگر ہماری فوج نہ ہوتی تو بتائیں ہمارا کیا بنتا؟ حافظ طاہر اشرفی

ہمارے رویے اتنے سخت ہو چکے ہیں کہ ہم آپس میں بیٹھ کر 5 منٹ بات نہیں کرسکتے، یہ ماحول ہم نے ہی پیدا کیا ہے، افغانستان سے کہتا ہوں کب تک آپ کے لوگ آکر ہمارے لوگوں کو شہید کریں گے؟ تقریب سے خطاب

Sajid Ali ساجد علی پیر 15 ستمبر 2025 16:21

فوج فوج کرتے ہیں اگر ہماری فوج نہ ہوتی تو بتائیں ہمارا کیا بنتا؟ حافظ ..
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر 2025ء ) مرکزی چیئرمین پاکستان علما کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی کا کہنا ہے کہ فوج فوج کرتے ہیں اگر ہماری فوج نہ ہوتی تو بتائیں ہمارا کیا بنتا؟۔ الحمراء لاہور میں پاکستان علماء کونسل کے زیرِ اہتمام پیغام رحمتہ للعالمین ﷺ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا ایک مشن ہے، اس لیے آپ کو یہاں اکٹھا کیا، ہمارے رویے اتنے سخت ہو چکے ہیں کہ ہم آپس میں بیٹھ کر 5 منٹ بات نہیں کر سکتے، یہ ماحول ہم نے ہی پیدا کیا ہے، افغانستان سے براہ راست کہتا ہوں کہ کب تک آپ کے لوگ ہمارے ملک میں آ کر ہمارے لوگوں کو شہید کریں گے؟ اگر ایسا ہی ہے تو آپ ہندوستان سے بڑے نہیں ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء و مشائخ ، مدارس عربیہ کے ذمہ داران نے انتہا پسندی، دہشتگردی، عدم برداشت کے خاتمے کیلئے ملک گیر سطح پر پیغام رحمت للعالمین (وحدت ، امن ، اعتدال) کے نام سے مہم شروع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وطن عزیز پاکستان میں امن و امان، معاشی استحکام، انتہا پسندی، عدم تشدد کے رویوں کے خاتمے اور ایک اعتدال پسند معاشرہ کے قیام کیلئے تمام طبقات کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔

(جاری ہے)

مقررین نے کہا کہ وطن عزیز پاکستان گزشتہ چالیس سال سے زائد عرصہ سے حالت جنگ میں ہے، پاکستان کے پڑوس میں آنے والی جنگوں اور تبدیلیوںنے پاکستان کے اعتدال پسند معاشرہ کو شدت پسندی، انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے پیغام اعتدال کو عام کیا جائے اور پاکستان کو اس کی اصل منزل اسلامی فلاحی اعتدال والی ریاست بنایا جائے اور اس کیلئے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ شریعت اسلامیہ نے فتوی کا اختیار قرآن و سنت کے علوم جاننے والے کو دیا ہے جس کا ضابطہ اور طریق کار طے ہے، ہر شخص خواہ وہ مفکر ہو، پروفیسر ہو یا امام مسجد اور خطیب فتوی نہیں دے سکتا، اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن و سنت کے علوم کو جانتا ہے لیکن وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی غلط تشریح کرتا ہے یا قرآن و سنت سے ایسے اعمال و افعال اور اقوال منسوب کرتا ہے جو تعلیمات اسلام کے خلاف ہیں تو ایسا شخص، ادارہ یا تنظیم اسلام کا نمائندہ نہیں ہے اور اس کے خلاف ریاست کو قانون کے مطابق کاروائی کرنی چاہیئے۔