پاکستان چین کے ساتھ تجارتی خسارہ ختم کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کرے،میاں زاہد حسین

پیر 22 ستمبر 2025 20:29

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2025ء)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچوئلزفورم اورآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، ایف پی سی سی آئی کی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان اور چین کی " اسٹریٹجک شراکت داری" میں نئے مواقع کی بنا پرپاکستان کے لیے اہم موقع ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے 13.6 بلین ڈالر کے تجارتی خسارے کوکم کرے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک متوازن اور باہمی مفاد پر مبنی تجارتی تعلق قائم کرے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ، چین اور پاکستان کے مابین فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے باوجود پاکستان کو 2024 میں 13.6 بلین ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پاکستان چین کو زیادہ تر خام مال برآمد کرتا ہے جس میں ویلیو ایڈیشن بہت کم ہوتی ہے جبکہ چین سے قیمتی مشینری اور تیار مال درامد کیا جاتا ہے جس میں ویلیو ایڈیشن بہت زیادہ ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے زور دیا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت چائنہ بزنس ڈیسک تشکیل دے جس میں ایسے آئٹمز تلاش کیے جائیں جو پاکستان چائنہ کو برآمد کر سکے۔

اس کے لیے ہمیں چائنہ پر زور دینا ہوگا کہ وہ بھارت سے جو ائٹم امپورٹ کرتا ہے وہ پاکستان سے ترجیحی بنیاد پر امپورٹ کرے۔ انہوں نے زور دیا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں پاکستان کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ چین سے تکنیکی تعاون کے ذریعے اپنی انڈسٹری کوجدید بنانے اور غیر روایتی برآمدی مصنوعات کے لیے مارکیٹنگ کرے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ امریکی- چینی تجارتی تنازع سے پاکستان کو ایک نادر اورقیمتی موقع ملا ہے۔

اس تنازع نے عالمی سپلائی چین کومتاثرکیا ہے، جس سے پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اورخاص طور پرٹیکسٹائل اور ملبوسات کے شعبے میں امریکی منڈی میں زیادہ حصہ لینے کا موقع حاصل ہوا ہے، کیونکہ پاکستان کو 19 فیصد ٹیرف جبکہ چین کے لیے ٹیرف 100 فیصد اور بھارت کے لیے امریکی ٹیرف 50 فیصد ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا یہ فیصلہ کن قدم اٹھانے کا وقت ہے۔ ہمیں نئی سرمایہ کاری لانے، ویلیو ایڈیشن بڑھانے اورایک غیر فعال پارٹنر کے بجائے متحرک اور برابری کی سطح کا پارٹنربننے کی طرف جانا ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ چینی ماہرین کی سیکیورٹی پاکستان کے لیے بہت اہم ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ روایتی مصنوعات میں تجارتی خسارے کوکم کرنا بھی ناگزیر ہے۔