’لندن میں شہبازشریف کے کنونشن کا دعوت نامہ بھیجا گیا مگر پھر پیغام آیا آپ نہ آئیں‘

یہ فرمان ایک سکیورٹی ایجنسی کے اہلکار نے جاری کیا، دعوت نامہ جاری کرنے والے سب انکاری ہوگئے کہ وہ اس ناہنجار کو جانتے بھی ہیں، سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا انکشاف

Sajid Ali ساجد علی بدھ 24 ستمبر 2025 13:34

’لندن میں شہبازشریف کے کنونشن کا دعوت نامہ بھیجا گیا مگر پھر پیغام ..
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 ستمبر2025ء ) سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں لندن میں شہباز شریف کے کنونشن میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا گیا مگر پھر پیغام بھیجا آپ نہ آئیں۔ اس حوالے سے اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ یہ فرمان ایک سکیورٹی ایجنسی کے اہلکار نے جاری کیا، دعوت نامہ جاری کرنے والے سب انکاری ہوگئے کہ وہ اس ناہنجار کو جانتے بھی ہیں، مجھے کامل یقین ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس عاجز کے بارے میں کوئی ایسی ہدایت نہیں دی ہوگی، میں ان کو جانتا ہوں اس لیے ان سے ایسی امید نہیں مگر مجھے روکنے کیلئے وزیراعظم کانام استعمال کیاگیا، اگر ضمیر اور اصول کی کوئی پسلی ہوتی تو یہ بتا تو دیتے کہ دعوت نامہ اور شرکت کی خصوصی درخواست بھجوا کر یوں انکار کرنا کتنا نامناسب ہوگا۔

(جاری ہے)

سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک کالم لکھا جس پر پہلے تحریک انصاف نے تبرے بھیجے پھر آئی ایس پی آر نے اس کی وضاحت کی تو جواباً اس عاجز نے بھی جواب الجواب تحریر کیا اور میرے خیال میں معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوگیا مگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے مجھے باغی اور راندہ درگاہ بنا دیا ہے، زبردستی شیر کی کھال میں لپیٹ کر مجھے شکار کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ طاقتوروں اور کمزور کی لڑائی میں جیتے گا تو طاقتور مگر کمزور کی آہ فتح کے نشے کو اڑا دیتی ہے، کمزور کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو وہ ریت تو آنکھوں میں پھینک سکتا ہے، قلم کار نہتا اور مسکین ہو تو تب بھی لفظوں کا ذخیرہ اس کے پاس ہر وقت موجود ہوتا ہے کیوں بے مقصد لڑائی چھیڑنا چاہتے ہیں کون ہے جو اس کھیل سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟ کون ہے جو اس زیرو کو زبردستی کا ہیرو بنانا چاہتا ہے اس سازشی کا پتا لگانا چاہیئے جو میرے گناہوں کو بخشوا کر میرے ماتھے پر محراب سجانا چاہتا ہے۔

تجزیہ کار کا مؤقف ہے کہ میں ان میں سے نہیں جو اداروں سے کسی جنگ یا کشمکش کے خواہاں ہوں، میں وہ بھی نہیں کہ جو اپنی مادر دھرتی کے مفادات کیخلاف مہم چلاؤں، میں وہ بھی نہیں جو پہلے خلائی پروازوں سے چینلوں میں نوکری پاتے تھے، خلانوردوں سے خبریں اور جھوٹی رپورٹیں لے کر اہل سیاست اور صحافت کو بدنام کرتے تھے، اس عاجز نے صحافت کی ایک ایک سیڑھی برسوں کی ریاضت سے طے کی ہے ہمیشہ توازن اور اعتدال کو مدنظر رکھا ہے اختلاف رائے کیا ہے مگر کبھی احترام کے دائرے کو عبور نہیں کیا۔