اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) بدھ کے روز ایرانی صدر مسعود پزیشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب کہا کہ ایران کبھی بھی ایٹمی بم بنانے کی کوشش نہیں کرے گا، تو اس کے چند ہی گھنٹے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا، ''ہم انہیں نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔‘‘
وٹکوف نے نیویارک میں کونکورڈیا سمٹ میں کہا،''ہم ان سے بات کر رہے ہیں۔
اور کیوں نہ کریں؟ ہم سب سے بات کرتے ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمارا کام مسائل کو حل کرنا ہے۔‘‘قبل ازیں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے کبھی ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ کبھی کرے گا۔
(جاری ہے)
مسعود پزشکیان نے ایران کے دیرینہ موقف کو دہراتے ہوئے کہا، ''میں اس اسمبلی کے سامنے ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں کہ ایران نے کبھی ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ کبھی کرے گا۔
‘‘ انہوں نے تاہم یہ بھی کہا کہ ایرانی قوم بارہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ ’’وہ جارح طاقت کے سامنے کبھی نہیں جھکے گی۔‘‘ایران کا امریکہ پر الزام
جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ سے پہلے، تہران اور واشنگٹن کے درمیان جوہری مذاکرات کے پانچ دور ہوئے لیکن بڑے اختلافی مسائل برقرار رہے، خصوصاً ایران میں یورینیم کی افزودگی، جسے مغربی طاقتیں صفر تک کم کرنا چاہتی ہیں تاکہ ایٹمی ہتھیار سازی کے خطرے کو ختم کیا جا سکے۔
تہران کا الزام ہے کہ واشنگٹن نے "سفارتکاری سے غداری" کی اور جنگ کے بعد سے جوہری مذاکرات رکے ہوئے ہیں۔
ایران کے ایک اندرونی ذریعے نے روئٹرز کو بتایا ''گزشتہ ہفتوں میں ثالثوں کے ذریعے کئی پیغامات واشنگٹن کو بھیجے گئے ہیں تاکہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکیں، لیکن امریکہ نے جواب نہیں دیا۔‘‘
منگل کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، جو خارجہ پالیسی اور ایران کے جوہری پروگرام جیسے اہم ریاستی امور پر آخری فیصلہ کرتے ہیں، نے دھمکی کے تحت امریکہ سے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا۔
امریکہ، اس کے یورپی اتحادی اور اسرائیل ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔
کچھ ہی گھنٹے باقی
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے 28 اگست کو "اسنیپ بیک" کے نام سے جانے جانے والے عمل کا آغاز کیا، جس کے تحت 30 دنوں میں اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد ہو جائیں گی۔
یہ عمل 27 ستمبر کو ختم ہو رہا ہے۔یورپی طاقتوں نے تہران پر الزام لگایا ہے کہ وہ 2015 کے معاہدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا ہے، جو ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔
یورپی ممالک نے پیشکش کی ہے کہ اگر ایران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو دوبارہ رسائی دیتا ہے، افزودہ یورینیم کے ذخیرے پر خدشات دور کرتا ہے اور امریکہ کے ساتھ بات چیت میں شامل ہوتا ہے، تو پابندیاں چھ ماہ تک مؤخر کی جا سکتی ہیں تاکہ طویل المدتی معاہدے پر بات چیت کا موقع مل سکے۔
وٹکوف نے کہا،''ہم چاہتے ہیں کہ یا تو ایک مستقل حل نکل آئے اور اسنیپ بیک پر بات ہو جائے، اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر اسنیپ بیک ہی درست علاج ثابت ہو گا۔‘‘
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہا کہ ایران کے پاس اب بھی موقع ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں کی بحالی کو روک سکے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ''ابھی بھی معاہدہ ممکن ہے۔
چند ہی گھنٹے باقی ہیں۔ یہ ایران پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے طے شدہ جائز شرائط پر پورا اترے۔‘‘یورپی سفارتکاروں نے روئٹرز کو بتایا کہ ایران، ای 3 (برطانیہ، فرانس، جرمنی) اور یورپی یونین نے بدھ کو ایک اور دور کے مذاکرات کیے۔
ہفتے کی ڈیڈلائن
اگر 27 ستمبر تک تہران اور ای 3 کسی توسیعی معاہدے تک نہ پہنچ سکے تو ایران پر اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں دوبارہ عائد کر دی جائیں گی۔
ایران کی معیشت پہلے ہی 2018 میں ٹرمپ کے معاہدہ توڑنے کے بعد لگائی گئی سخت پابندیوں سے بری طرح متاثر ہے۔’اسنیپ بیک‘ کے عمل کے تحت ہتھیاروں کی پابندی، یورینیم کی افزودگی اور ری پروسیسنگ پر پابندی، ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائلوں کی سرگرمیوں پر پابندی، عالمی سطح پر اثاثے منجمد کرنے اور ایرانی افراد و اداروں پر سفری پابندیاں شامل ہوں گی۔
ادارت: صلاح الدین زین