مقبوضہ کشمیر،عدالت نے سابق بارصدر علیل میاں عبدالقیوم کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا

ایک ضعیف اور بیمار وکیل کو مسلسل قید میں رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے،قانونی ماہرین

اتوار 28 ستمبر 2025 12:50

جموں(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 ستمبر2025ء) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں عبدالقیوم کی بگڑتی ہوئی صحت اور ضعیف العمری کے باوجود جموں کی ایک خصوصی عدالت نے ان کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، 77 سالہ میاں قیوم اس وقت ڈسٹرکٹ جیل جموں میں قید ہیں۔

انہوں نے اپنی ضمانت کی درخواست میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، دل کے عارضے، ایک ہی گردہ ہونے اور نومبر 2024 میں دل کا مستقل پیس میکر لگوانے جیسی بیماریوں کا حوالہ دیتے ہوئے انسانی بنیادوں پر رہائی کی اپیل کی تھی۔ان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسی حالت میں مسلسل قید ان کی زندگی کے لیے شدید خطرہ ہے اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہے، جو زندگی اور مناسب طبی علاج کا حق فراہم کرتا ہے۔

(جاری ہے)

تاہم ریاستی تفتیشی ایجنسی (SIA) کے وکلاء نے درخواست کی مخالفت کی اور خصوصی عدالت کے جج مدن لال نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رہائی سے "مقدمے کو نقصان پہنچ سکتا ہی" کیونکہ میاں قیوم پر کالے قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چل رہا ہے۔میاں عبدالقیوم ایک معزز قانون دان اور انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہیں ایڈووکیٹ بابر قادری کے قتل کے جھوٹے کیس میں ملوث قرار دیا گیا تھا، جسے انسانی حقوق کی تنظیمیں نئی دہلی کی طرف سے کشمیری آوازوں کو دبانے کے لیے گھڑے گئے مقدمات کی ایک کڑی قرار دیتی ہیں۔

قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ ایک ضعیف اور بیمار وکیل کو مسلسل قید میں رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کیس مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے سخت قوانین اور سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات کے ذریعے اختلاف رائے دبانے کی حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔