ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق تنازعہ: اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ

DW ڈی ڈبلیو اتوار 28 ستمبر 2025 14:20

ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق تنازعہ: اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ ..
  • ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق تنازعہ: اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ

ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق تنازعہ: اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ

ایران اور سرکردہ عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والے تاریخی جوہری معاہدے کے تقریباﹰ ایک عشرے بعد تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق پائے جانے والے تنازعے میں اقوام متحدہ کی سخت پابندیاں دوبارہ نافذ العمل ہو گئی ہیں۔

ایسا عالمی وقت کے مطابق اتوار 28 ستمبر کی صبح اس وقت خود بخود ہو گیا، جب تہران اور اس کے ساتھ مذاکرات میں شریک E3 کہلانے والے تین یورپی ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے مابین کسی اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے طے کردہ میعاد کسی کامیابی کے بغیر ہی ختم ہو گئی۔

(جاری ہے)

’اسنیپ بیک میکینزم‘

تہران کی برلن، پیرس اور لندن کے حکومتی نمائندوں کے ساتھ مکالمت کے بے نتیجہ رہنے کے بعد ان تینوں ممالک نے اگست کے آخر میں وہ طریقہ کار دوبارہ فعال کر دیا تھا، جس کے لیے ''اسنیپ بیک میکینزم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

اس طریقہ کار کے تحت اگلے 30 روز میں مزید کوئی پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سخت پابندیاں دوبارہ مؤثر ہو جانا تھیں اور ایسا آج اتوار کی صبح ہو بھی گیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عالمی ادارے کی دوبارہ نافذ ہو جانے والی یہ پابندیاں وسیع تر اثرات کی حامل ہوں گی۔ ان کے تحت ایران کو ہتھیاروں کی فراہمی ممنوع ہے، ایرانی بینکوں اور مالیاتی شعبے کو بھی دوبارہ پابندیوں کا سامنا ہے اور ایران کو بہت سی تجارتی مصنوعات کی برآمد یا وہاں سے کسی دوسرے ملک میں درآمد پر بھی اب پابندی ہے۔

تہران حکومت کو، جسے پہلے ہی ملک میں افراط زر کی بہت اونچی شرح کا سامنا ہے، اب ان دوبارہ نافذ العمل ہو جانے والی پابندیوں کے باعث مزید اقتصادی مشکلات اور مالیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عالمی سلامتی کونسل کی طرف سے میعاد میں توسیع کی مخالفت

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کے خلاف ان پابندیوں کے دوبارہ مؤثر ہو جانے سے کچھ ہی دیر پہلے اس سلسلے میں طے شدہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی تجویز مسترد کر دی تھی۔

اس بارے میں سلامتی کونسل میں ایک مسودہ قرارداد ایران کی حلیف ریاستوں چین اور روس کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ تاہم 15 رکنی سلامتی کونسل کے نو رکن ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے تہران کو اس کے متنازعہ جوہری پروگرام سے متعلق کسی تصفیے تک پہنچنے کے لیے مزید کوئی وقت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ایسا اسی وجہ سے ہوا تھا کہ سلامتی کونسل میں اس قرارداد پر رائے شماری کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اور جرمنی، فرانس اور برطانیہ پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے تہران حکومت نے برلن، پیرس اور لندن میں تعینات اپنے سفیروں کو مشاورت کے لیے واپس بلا لیا تھا۔

مغربی طاقتوں کا ایران پر الزام ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھتے ہوئے ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔ تہران حکومت تاہم اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے بھی اسی ہفتے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تہران نے آج تک جوہری ہتھیار بنانے کی نہ تو کوئی کوشش کی ہے اور نہ ہی وہ آئندہ کبھی ایسا کرے گا۔