اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 ستمبر 2025ء) 1990ء کی دہائی میں اپنے عروج کے وقت یہ صنعت دو ارب ڈالر سے زائد کی برآمدی آمدنی حاصل کرتی تھی لیکن اب یہ صنعت مشکل سے 40 ملین ڈالر اکٹھے کر پاتی ہے، جو کہ 95 فیصد سے زیادہ کی ڈرامائی کمی ہے۔
سن 2018 میں پابندیوں کے دوبارہ نافذ ہونے سے اس قدیم ہنر نے اپنی سب سے بڑی امریکی مارکیٹ کھو دی۔
ایران کے نیشنل کارپٹ سینٹر کی سربراہ زہرہ کمانی نے سرکاری ٹی وی کو بتایا، ''ہاتھ سے بنے قالینوں کے شعبے پر امریکہ نے بے رحم اور ظالمانہ پابندیاں عائد کیں، ہم نے امریکہ کو کھو دیا، جو ایرانی ہاتھ سے بنے قالینوں کا 70 فیصد سے زیادہ خریدتا تھا۔‘‘
قالین ایران کی تیل کے بعد سب سے اہم برآمدات میں سے ایک سمجھے جاتے تھے۔
(جاری ہے)
لیکن ایران کی کسٹمز آرگنائزیشن کے مطابق گزشتہ ایرانی کیلنڈر سال میں، جو مارچ میں ختم ہوا، برآمدات صرف 41.7 ملین ڈالر رہیں۔
رواں سال یہ قالینیں 55 ممالک کو برآمدات کی گئیں، جن میں جرمنی، متحدہ عرب امارات، جاپان اور چین سرفہرست تھے۔
اس دوران، بھارت، چین، نیپال اور پاکستان جیسے حریف ممالک نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی مارکیٹ میں خلاء کو پر کرنے کی کوشش کی۔ایرانی قالینوں کی زیادہ قیمتیں
کمانی کے مطابق کچھ سستے قالین ایران میں بھی درآمد کیے جا رہے ہیں، جہاں کم از کم دو ملین افراد، جن میں دیہی علاقوں کی خواتین بھی شامل ہیں، قالین بافی کی صنعت پر انحصار کرتے ہیں اور بعض اوقات دن میں چند ڈالر ہی کما پاتے ہیں۔
قالینوں کے تاجر حامد نبی زادہ کا کہنا تھا، ''ایران خود بھی دوسرے ممالک، جیسے کہ بھارت، ترکی اور چین سے قالین درآمد کر رہا ہے۔ ان درآمدات کی وجہ سے ہم ایرانی مارکیٹ میں اپنی مقامی فروخت کا ایک حصہ کھو رہے ہیں۔‘‘
کئی دہائیوں تک مغربی سیاح ایران سے گزرتے ہوئے قالین تحائف یا یادگار کے طور پر خریدتے تھے۔ لیکن سفری انتباہات اور کشیدہ تعلقات کی وجہ سے سیاحت کی صنعت متاثر ہونے سے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد کم ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ قالینوں کی کم فروخت کی صورت میں نکلا ہے۔
نبی زادہ نے مزید کہا کہ جو سیاح آتے بھی ہیں، ''وہ ہمارے کام میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ صارفین کے ذوق بدل چکے ہیں اور قیمتیں زیادہ ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ''یورپی ملکوں میں رہنے والوں کے لیے بھی 30 ہزار سے 40 ہزار ڈالر کا ریشمی قالین خریدنا مشکل ہے۔ قالین کی ترسیل بھی سیاحوں کے لیے کافی چیلنجنگ ہے۔‘‘
ایران اپنی قالین بافی کی صنعت کو کیسے جدید بنانا چاہتا ہے؟
ماہرین مارکیٹ کے اس زوال کی وجہ معاشی اور سیاسی عوامل کے پیچیدہ امتزاج کو قرار دیتے ہیں۔
وسیع بین الاقوامی پابندیوں نے اہم مارکیٹوں تک رسائی منقطع کر دی ہے، جبکہ ناقص ملکی کرنسی اور زر مبادلہ کی پالیسیوں، خاص طور پر برآمدی آمدنی کی واپسی پر پابندیوں نے مسابقت کو کمزور کیا ہے۔ اس کے علاوہ پیداواری لاگت میں اضافہ اور حکومتی حمایت کی کمی نے صنعت کو مزید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔صنعت کی بحالی کی کوششیں
ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ اس صنعت اور قالین بافی کے فن، جو کہ پرشیا کے کانسی کے دور سے تعلق رکھتا ہے، کی بحالی ممکن ہے۔
جون میں سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے حوالے سے وزیر تجارت محمد اتابک نے کہا، ''ہم نے کچھ بین الاقوامی مارکیٹیں کھو دی ہیں لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ ملکی تجارت اور کرنسی کے قوانین کے ساتھ ہم اس صنعت کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ''ہم نئے معاہدوں کے ذریعے ملک کے تاجروں کے لیے برآمدات کو فروغ دینے اور سہولت فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
‘‘نبی زادہ کے مطابق اس بحران سے نکلنے کا راستہ ''موجودہ سجاوٹ کے رجحانات پر زیادہ توجہ دینا‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا۔ ''ہمیں ان رجحانات کی بنیاد پر قالین تیار کرنے چاہئیں اور اس تعصب سے بچنا چاہیے کہ قالینوں کے وہی ڈیزائن ہونے چاہئیں۔‘‘
ایرانی مشینیں، افغان قالینوں کی قاتل
انہوں نے ''سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن صارفین کو راغب کرنے اور قالینوں کے لیے مضبوط برانڈنگ بنانے‘‘ کو بھی ممکنہ حل قرار دیا۔
لیکن قومی کرنسی کی ڈالر کے مقابلے میں گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے مقامی مارکیٹ بھی خطرے میں ہے۔
31 سالہ دلہن شیما، جو اپنی رازداری برقرار رکھنے کے لیے پورا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں، نے کہا، ''میں ہمیشہ اپنے جہیز کے لیے ہاتھ سے بنے قالین چاہتی تھی اور میرے خاندان نے اس کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ انہیں خرید نہیں سکے۔ اس کے بجائے ہم نے فیکٹری میں بنے قالینوں کا انتخاب کیا۔
‘‘انہوں نے کہا، ''یہ ایک قدیم شادی کی روایت ہے کہ دلہن کو گھر کے قالین فراہم کرنے چاہئیں۔ تاہم آج کل بہت سے خاندان کم قیمتوں کی وجہ سے فیکٹری میں بنے قالینوں کا انتخاب کر رہے ہیں یا اگر وہ زیادہ ضرورت مند طبقے سے ہیں تو قالین بالکل نہیں خریدتے۔‘‘
اب، جبکہ ایران مقامی صارفین کھو رہا ہے اور عالمی مارکیٹوں پر کم لاگت کی نقلیں غالب آ رہی ہیں، فارسی قالین ایک کھوئے ہوئے سنہری دور کی یادگار بننے کا خطرہ مول لے رہے ہیں، جس کی میراث ایک نازک دھاگے سے جڑی ہوئی ہے۔
ادارت: عاطف توقیر