اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 ستمبر 2025ء) دو ہفتے قبل اسرائیل کی جانب سے قطر پر داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کے خلاف خلیجی ریاست کی جانب سے کوئی موثر جوابی اقدام ممکن نہیں تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، تقریباً 10 اسرائیلی لڑاکا طیارے 9 ستمبر کو بحیرہ احمر کے اوپر سے گزرے اور پھر "اوور دی ہورائزن" حملے کے تحت میزائل داغے۔
اسرائیل نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کے لڑاکا طیارے کسی دوسرے ملک کی فضائی حدود میں نہ داخل ہوں۔اسرائیل کے مطابق اس کے میزائلوں کا حتمی ہدف حماس کے عسکری ارکان تھے، جو قطر کے دارالحکومت دوحہ کے ایک اشرافیہ علاقے میں ممکنہ غزہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے، جو بظاہر اسرائیل کے اصل اہداف نہیں تھے۔
(جاری ہے)
چونکہ میزائل غیر متوقع طور پر اور "اوور دی ہورائزن" طریقے سے آئے، قطر اپنی حفاظت کرنے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ قطر کی اسرائیل کے خلاف سب سے اہم حفاظتی تدابیر میں سے ایک کا تعلق جدید میزائل دفاعی نظاموں سے نہیں ہے۔ اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی، امریکہ، کا خطے میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ اسی ملک میں ہے اور اس نے حال ہی میں قطر کو "میجر نان نیٹو الائی" یعنی اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دیا ہے۔
تاہم، اسرائیل کو خلیجی عرب ریاست پر حملہ کرنے سے روکنے کے لیے یہ کافی ثابت نہیں ہو سکا۔ اور یہ بھی ایک ایسا اقدام تھا جس کے بارے میں ممکنہ طور پر امریکہ کو پہلے سے معلوم ہونا ضروری تھا۔
امریکہ اب غیر معتبر ہوتا جا رہا ہے
واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے ادارے میں سینئر ریزیڈنٹ اسکالر کرسٹین دیوان نے حملے کے فوراً بعد لکھا، ''اسرائیلی حملہ … خلیجی ریاستوں کے امریکہ سے تعلقات کے بارے میں ان کے مفروضات کو جھنجھوڑ دیتا ہے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لائے گا۔
‘‘ انہوں نے مزید لکھا،’’یہ تیل پر مبنی مملکتیں ایک دوسرے سے بہت ملتی جلتی ہیں … ان کی خودمختاری اور حفاظت پر ایسا براہ راست حملہ ان سب کے لیے ناقابل قبول ہے۔‘‘چیتھم ہاؤس کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کی ڈائریکٹر سانم وکیل نے برطانوی اخبار دی گارڈین میں اس ماہ ایک مضمون میں لکھا، نتیجتاً ''خلیجی حکمران زیادہ اسٹریٹجک خودمختاری کے حصول کی کوشش میں تیز قدمی اختیار کر رہے ہیں اور امریکہ پر انحصار کے خطرات سے بچنے کے لیے زیادہ پرعزم ہیں۔
‘‘یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران ''اسلامی نیٹو‘‘ کے قیام کی باتیں زور پکڑ گئی ہیں، یعنی اسلامی اور عرب ریاستوں کا ایک دفاعی اتحاد جو شمالی اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کی طرح کام کر سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے عرب لیگ اور تنظیم اسلامی تعاون کے زیر اہتمام ایک ہنگامی اجلاس میں، مصری حکام نے عرب ممالک کے لیے نیٹو طرز کی مشترکہ ٹاسک فورس تجویز کی۔
اجلاس میں عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی نے بھی خطے کی سلامتی کے لیے اجتماعی حکمت عملی کی اپیل کی۔ اور خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے چھ ارکان — بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات — نے اعلان کیا کہ وہ 2000 میں دستخط ہونے والے مشترکہ دفاعی معاہدے کی ایک شق کو فعال کریں گے، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی رکن ملک پر حملہ تمام رکن ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا۔یہ عبارت نیٹو معاہدے کے آرٹیکل 5 سے مماثل ہے۔
ابتدائی ہنگامی اجلاس کے بعد، خلیجی ریاستوں کے وزراء دفاع نے دوحہ میں ایک اور میٹنگ کی اور انٹیلیجنس کے تبادلے اور فضائی صورتحال کی رپورٹنگ کو بڑھانے، اور بیلسٹک میزائل وارننگ کے لیے ایک نئے علاقائی نظام کو جلد نافذ کرنے پر اتفاق کیا۔ مشترکہ فوجی مشقوں کے منصوبے کا بھی اعلان کیا گیا۔
اسی ہفتے، سعودی عرب نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ''اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘‘ میں داخل ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک نے اعلان کیا کہ ’’کسی بھی ملک پر جارحیت کو دونوں کے خلاف جارحیت سمجھا جائے گا۔‘‘
کیا یہ ’اسلامی نیٹو‘ کا آغاز ہے؟
یہ سن کر لگ سکتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف کسی قسم کا ''اسلامی نیٹو‘‘ بن رہا ہے، لیکن مبصرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حقیقت کچھ مختلف ہے۔
کنگز کالج لندن کے سکیورٹی اسٹڈیز کے سینئر لیکچرر اینڈریاس کریگ نے کہا، ''نیٹو طرز کا اتحاد غیر حقیقت پسندانہ ہے کیونکہ یہ خلیجی ریاستوں کو ایسی جنگوں میں الجھا دے گا جو وہ اپنی اہم مفادات کے لیے ضروری نہیں سمجھتیں۔ مثال کے طور پر، خلیج کا کوئی حکمران مصر کی خاطر اسرائیل کے ساتھ تصادم میں نہیں پھنسنا چاہتا۔‘‘
تاہم، مبصرین کے مطابق دوحہ پر حملے کے بعد حالات بدل رہے ہیں۔
کریگ نے کہا، ''خلیج میں سلامتی طویل عرصے تک ایک 'رقیق منطق' پر مبنی رہی ہے، یعنی بنیادی طور پر آپ کسی اور کو اپنی حفاظت کے لیے پیسے دیتے ہیں۔ یہ سوچ دوحہ پر حملے کے بعد بدلنے لگی ہے، لیکن بہت آہستہ آہستہ۔‘‘
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات میں خلیجی ریاستوں کی ماہر سنزیا بیانکو کے مطابق، دنیا شاید ''اسلامی نیٹو‘‘ کے بجائے 6+2 فارمیٹ دیکھے گی۔
"6+2" سے مراد چھ جی سی سی ریاستیں اور ترکی و مصر ہیں۔بیانکو کا خیال ہے کہ اس قسم کے فارمیٹ پر اس ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران ضمنی ملاقاتوں میں بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ حقیقت میں آرٹیکل 5 کے طرز کے معاہدے کے بارے میں نہیں ہے۔ خلیجی ریاستوں کا ایک دوسرے کے دفاع کے لیے عزم نیٹو کے ممبران جتنا مضبوط نہیں ہے۔
یہ زیادہ امکان ہے کہ یہ سکیورٹی اور دفاعی رویوں کو اجتماعی کرنے کے بارے میں ہو، اور سب سے اہم بات یہ کہ اسرائیل کو ایک پیغام کے طور پر ان کی نیت ظاہر کرے۔‘‘دوسری جگہ سے فوجی مدد
کریگ کے مطابق، "6+2" فارمیٹ، ''اسلامی نیٹو‘‘ کے مقابلے میں زیادہ معقول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی دراصل ’’خلیج کے لیے سب سے قابل اعتماد غیر مغربی شریک ہے، جس کے فوجی 2017 سے قطر میں تعینات ہیں اور بحران کی صورت میں فوری کارروائی کی حقیقی صلاحیت رکھتے ہیں۔
‘‘تاہم، مصر کا معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ ''اس کے پاس فوجی طاقت تو ہے لیکن کچھ خلیجی دارالحکومتوں میں اس کی معتبریت پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔‘‘
کریگ اور بیانکو دونوں کا کہنا ہے کہ اگر "6+2" فارمیٹ پر عمل درآمد ہوتا بھی ہے، تو یہ آہستہ اور خاموشی سے ہو گا۔
کریگ پیش گوئی کرتے ہیں،''زیادہ تر سنجیدہ تبدیلیاں پردے کے پیچھے ہوں گی۔
ہم عوامی بیانات، اجلاس اور مشترکہ مشقیں دیکھیں گے، لیکن اہم کام جیسے ریڈار ڈیٹا کا اشتراک، ابتدائی وارننگ سسٹمز کو مربوط کرنا، یا بیس استعمال کرنے کے حقوق دینا خفیہ طور پر رہیں گے۔‘‘یہ بھی ممکن ہے کہ خلیجی ریاستیں، جو زیادہ تر امریکہ پر منحصر رہی ہیں، دوسرے ممالک کے ساتھ دفاعی تعلقات بڑھانے کی کوشش کریں۔
قطر یونیورسٹی کے گلف اسٹڈیز سینٹر کی محقق سینم سینگیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بلاشبہ روس اور چین جیسے دیگر فریق بھی ہیں، جو امریکہ کی جگہ لینے کے لیے تیار ہیں۔
لیکن یہ ممکن نہیں کہ کوئی بیرونی فریق ایک رات میں امریکہ کی جگہ لے لے۔‘‘بیانکو اس پر مزید کہتے ہیں کہ خلیجی ریاستیں بھی دراصل ایسا نہیں چاہیں گی۔ وہ امریکی فوجی ٹیکنالوجی پر منحصر ہیں۔ مثال کے طور پر، دوحہ پر حملے کے بعد قطر نے امریکہ سے یقین دہانی طلب کی کہ وہ ابھی بھی ان کے شراکت دار ہیں۔
بیانکو نے کہا، ''یہ بھی اہم بات ہے کہ امریکہ کبھی اس قسم کی علاقائی دفاعی تنظیم کے کھلے طور پر مخالف نہیں رہا۔
وہ دراصل ہمیشہ خلیجی ممالک کے لیے ایک مشترکہ بیلسٹک میزائل دفاعی نظام کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔‘‘کریگ وضاحت کرتے ہیں کہ حقیقت میں خلیج میں زیادہ فوجی انضمام کا مطلب زیادہ امریکہ بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ امریکی نظام علاقائی دفاع کی بنیاد ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ''لیکن سیاسی معنی بدل چکے ہیں۔ واشنگٹن اب سلامتی کے حتمی ضامن کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، بلکہ ایک ایسے شراکت دار کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی حمایت مشروط اور لین دین پر مبنی ہے۔
خلیجی رہنما اس خیال کے مطابق خود کو ڈھال رہے ہیں کہ امریکہ کے مفادات ہیں، اتحادی نہیں، اور وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان خلیج کی قیادت میں ایک سکیورٹی ڈھانچے کی تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ادارت: صلاح الدین زین