اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 ستمبر 2025ء) دہلی کی ایک عدالت نے کئی معروف صحافیوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو ارب پتی صنعت کار اور وزیر اعظم نریندر مودی کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے گوتم اڈانی کے بزنس گروپ کے خلاف تنقیدی یا "غیر مصدقہ" مواد شائع کرنے سے روک دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ اقدام اظہارِ رائے پر قدغن اور قبل از وقت سنسرشپ کی خطرناک مثال ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور متعدد صحافیوں نے اسے آزادیٔ صحافت کے لیے "تشویشناک" قرار دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے بڑے کارپوریشنز پر تنقیدی رپورٹنگ مزید مشکل ہو جائے گی اور میڈیا پر دباؤ بڑھے گا۔چھ ستمبر کو دہلی کی ایک عدالت نے "ایکس-پارٹے آرڈر" میں بھارتی صنعتکار گروپ اڈانی انٹرپرائزز کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے 9 صحافیوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے خلاف حکمِ امتناع جاری کیا، جس کے تحت انہیں ایسا مواد شائع یا تقسیم کرنے سے روک دیا گیا جو اڈانی نے "غیر مصدقہ اور ہتک آمیز" قرار دیا ہو۔
(جاری ہے)
یہ پابندی بھارت کے معروف ترین صحافیوں اور کانٹینٹ کریئیٹرز پر بھی لاگو ہوئی، جن میں رویش کمار، دھروو راٹھی، پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا اور ابھیسار شرما شامل ہیں۔ عدالت کے حکم پر فوری عمل درآمد کرتے ہوئے بھارتی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے تقریباً 140 یوٹیوب ویڈیوز اور 80 سے زائد انسٹاگرام پوسٹس ہٹوا دیں۔
ایک "تشویشناک مثال"
اگرچہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ "درست اور مصدقہ مواد پر مبنی رپورٹنگ" محفوظ رہے گی، لیکن وکیل نکول گاندھی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس حکم کی "ایکس-پارٹے" نوعیت (یعنی مخالف فریق کو سنے بغیر فیصلہ دینا) صحافتی آزادی کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
عام طور پر ایکس-پارٹے حکم کسی فریق کو فوری نقصان سے بچانے کے لیے دیا جاتا ہے، لیکن اس معاملے میں اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ میڈیا کے مواد کو اس سے پہلے ہی سنسر کر دیا جائے کہ عدالت حتمی طور پر فیصلہ کرے کہ وہ مواد ہتک آمیز یا غیر مصدقہ ہے یا نہیں۔ گاندھی کے مطابق یہ اصولی انصاف اور آئینی آزادیٔ اظہار دونوں کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حکم کی وسیع تر گنجائش اور فوری سرکاری عمل درآمد پری پبلی کیشن سنسرشپ (شائع ہونے سے پہلے روک دینا) کو معمول کا قانونی ہتھیار بنا سکتا ہے۔
ان کے بقول، یہ آزادیٔ اظہار پر قدغن لگا کر بھارت میں ڈیجیٹل مباحثے کو قابو میں لانے کی "خطرناک نظیر" ہے۔یہ فیصلہ ان افراد پر بھی لاگو کیا گیا ہے جنہیں مقدمے میں نامزد نہیں کیا گیا تھا۔ امریکا میں اس طرح کے احکامات کو "جان ڈو آرڈر" کہا جاتا ہے، جبکہ بھارت میں انہیں "اشوک کمار آرڈر" کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ طریقہ زیادہ تر حقوق املاک دانش کے مقدمات میں استعمال ہوتا تھا، لیکن اب اس کے میڈیا پر لاگو ہونے پر تشویش بڑھ گئی ہے۔
صحافی ابیر داس گپتا، جن پر بھی یہ حکم عائد کیا گیا ہے نے کہا، "یہ حکم ملزمان کو سنے بغیر جاری کیا گیا ہے اور مدعا علیہان پر بھی لاگو ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ اصولاً کسی پر بھی نافذ ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے آئندہ خبروں کی رپورٹنگ متاثر ہو گی۔
میڈیا کا ردِعمل
آکاش بنرجی، جو اپنے طنزیہ یوٹیوب چینل "دی دیش بھکت" کے لیے جانے جاتے ہیں، نے کہا کہ انہیں اڈانی 'گَیگ آرڈر‘ کے دائرہ کار میں شامل کیا گیا، حالانکہ وہ سات سال سے کھلے اور محتاط طریقے سے کام کر رہے ہیں۔
بنرجی نے ڈوئچے ویلے سے کہا، "دیکھیں کہ وزارتِ اطلاعات نے عدالت کے حکم کو کتنی تیزی اور فوراً نافذ کیا۔ یہ اقدامات صرف نامزد افراد تک محدود نہیں بلکہ وسیع تر اثر ڈالیں گے۔ ایک سطح پر صحافتی آزادی کے لیے لفظی حمایت ہے، اور دوسری سطح پر یہ عمل ہو رہا ہے۔"
دی وائر کے شریک بانی ایم کے وینو نے کہا کہ یہ حکم خطرناک ہے کیونکہ یہ اظہارِ رائے کی آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا، "اس معاملے میں حکومت نے بڑی تعداد میں آن لائن میڈیا پلیٹ فارمز کو غیر معمولی ہدایات دی ہیں کہ اڈانی گروپ سے متعلق یوٹیوب اور انسٹاگرام لنکس ہٹا دی جائیں، اس لیے کہ وہ مبینہ طور پر ہتک آمیز ہیں۔"وینو نے مزید کہا، "اگر یہ بغیر عدالت کی مداخلت اور میڈیا کے اظہارِ رائے کے حق کی حفاظت کے جاری رہا، تو ایسا وقت آئے گا جب صحافی ایسے بڑے کارپوریشنز سے سوال بھی نہیں کر سکیں گے، جو حکومتی حمایت کے ساتھ بلا روک ٹوک ترقی پا رہے ہیں۔
""جب طریقہ کار ہی سزا بن جائے"
اس فیصلے کے خلاف کچھ مزاحمت بھی سامنے آئی ہے۔ پچھلے ہفتے دہلی کی ایک عدالت نے چار صحافیوں کے حق میں فیصلہ دیا، جن کی نمائندگی نکول گاندھی نے کی تھی، اور گَیگ آرڈر کو اس بنیاد پر ختم کر دیا کہ انہیں اپنے دفاع کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔
تحقیقی صحافی روی نائر، جو ان چار صحافیوں میں شامل تھے، نے کہا کہ اڈانی کی جانب سے حالیہ فیصلہ صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے قبل از وقت پابندی کے استعمال کی ایک اور مثال ہے۔
نائر نے کہا کہ ایکس-پارٹے احکامات کا استعمال قانونی حکمت عملیوں کے ایسے مقدمات کی یاد دلاتا ہے، جو ناقدین کو ڈرانے، خاموش کرنے یا قانونی اخراجات اور وقت کی بوجھ ڈال کر پریشان کرنے کے لیے دائر کیے جاتے ہیں۔
نائر نے کہا، "میں 2021 میں اڈانی گروپ کی طرف سے دائر ایک اور ہتکِ عزت کے مقدمے سے بھی لڑ رہا ہوں۔ ایسے مقدمات کا مقصد یہ ہے کہ صحافی قانونی اخراجات، وقت کے ضیاع اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے تھک جائیں۔
"انہوں نے مزید کہا، "خود طریقہ کار ہی سزا بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ عام طور پر ان بڑے کارپوریٹ اداروں کی بدعنوانیوں کی تحقیقات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔"
پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے بعد بھارت میں میڈیا پر کریک ڈاؤن
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے عدالت کے حکم اور مواد ہٹانے کے اقدام کو "تشویشناک" قرار دیا۔
گلڈ نے بیان میں کہا، "اس حکومتی طاقت کی توسیع نے ایک نجی ادارے کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ طے کرے کہ ان کے معاملات سے متعلق کون سا مواد ہتک آمیز ہے، اور اس کے تحت مواد ہٹانے کا حکم دیا جا سکتا ہے۔"
بین الاقوامی فیڈریشن آف جرنلسٹس کی جانب سے مئی میں جاری ساوتھ ایشیا پریس فریڈم رپورٹ میں بھارت میں صحافتی آزادی کا سخت جائزہ پیش کیا گیا، جس میں صحافیوں اور میڈیا اداروں کے لیے پائی جانے والی مسلسل اور گہری مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے تعارف میں کہا گیا، "میڈیا، جو دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں ایک اہم اسٹیک ہولڈر سمجھا جاتا ہے، کو پابند کیا گیا اور اسے باضابطہ حکمتِ عملی کے تحت دبانے کی کوشش کی گئی۔ پچھلے بارہ سالوں میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو حکومت اور کارپوریٹ مالکان کی مداخلت کے ذریعے قابو میں کیا گیا ہے۔"
اڈانی کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
ارب پتی کاروباری شخصیت گوتم اڈانی بھارتی کاروباری گروپ اڈانی گروپ کے چیئرمین ہیں، جو انفراسٹرکچر، توانائی، ٹرانسپورٹ، کان کنی اور صارفین کی مصنوعات میں سرگرم ہے اور بھارت بھر کے بڑے ہوائی اڈے اور سڑکیں بھی چلاتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو اڈانی کا قریبی حلیف سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اڈانی کے کاروباری مفادات اکثر حکومت کے ترقیاتی اہداف کے مطابق ہوتے ہیں۔
اڈانی گروپ نے عدالتی حکم اور اس کے اظہارِ رائے اور صحافتی آزادی پر اثرات کے بارے میں عوامی ردعمل نہیں دیا۔ تاہم، اڈانی کی نمائندگی کرنے والے وکیل جگدیپ شرما نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ صحافیوں کے خلاف حکم جائز ہے۔
اڈانی کے ہتکِ عزت کے مقدمے میں دعویٰ کیا گیا کہ رپورٹنگ "بھارت مخالف مفادات" کے ساتھ ہم آہنگ تھی۔ شرما نے کہا، "منفی رپورٹنگ گروپ کے خلاف ایک غیر منصفانہ مہم تھی، جس نے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور اس کی خدمات کو نظرانداز کیا۔ اس کے پیچھے ذاتی مفادات کارفرما ہیں۔"
2023 میں امریکی شارٹ سیلنگ فرم ہنڈن برگ ریسرچ کی جانب سے اڈانی پر اسٹاک میں دھوکہ دہی اور دیگر الزامات کو گزشتہ ہفتے، بھارتی ریگولیٹرز نے خارج کر دیا۔
ادارت: صلاح الدین زین