34 سال بعد ان کو یاد آیا کہ ڈگری جعلی ہے؟ ایسا دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، جسٹس طارق جہانگیری

سماعت کیلئے جسٹس محسن کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق بھی ان کے ہمراہ سائلین کے دروازے سے کارڈ لے کر سپریم کورٹ پہنچے

Sajid Ali ساجد علی پیر 29 ستمبر 2025 11:08

34 سال بعد ان کو یاد آیا  کہ ڈگری جعلی ہے؟ ایسا دنیا کی تاریخ میں کبھی ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 29 ستمبر2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اپنی قانون کی ڈگری منسوخ کیے جانے پر ردعمل دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران آمد پر صحافی نے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے ڈگری سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’حیرت کی بات ہے 34 سال بعد ڈگری منسوخ کر رہے ہیں، اب 34 سال بعد ان کو یاد آیا ہے کہ ڈگری جعلی ہے، دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا‘، اس موقع پر ان سے سوال کیا گیا کہ ’کچھ لوگوں کا دعوی ہے آپ کا استعفی آرہا ہے‘، جسٹس جہانگیری نے اس پر جواب دیا کہ ’اللہ خیر کرے گا‘، بعد ازاں اجب سپریم کورٹ نے انہیں بحال کرتے ہوئے جوڈیشل ورک کرنے کی اجازت دے دی تو صحافی نے پوچھا کہ ’کیا آپ کل عدالتی کام نمٹا کر آئیں گے؟‘ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے کہا کہ ’میں آج جا کر ہی مقدمات سنوں گا‘۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے کام سے روکنے کا جسٹس سرفراز ڈوگر کا آرڈر معطل کرتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بحال کردیا اور انہیں جوڈیشل ورک کرنے اجازت دے دی، سپریم کورٹ کے 5رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی اور سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام کرنے کی اجازت دے دی، اس حوالے سے عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل آفس کو نوٹس کردیا، عدالت نے ہائیکورٹ میں درخواست گزار کو بھی نوٹس جاری کیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے وضاحت دی کہ ’ہمارے پاس تو کیس صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے عبوری حکم کی حد تک ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 18 اکتوبر کو بلا لیا گیا ہے‘، جسٹس شاہد بلال نے کہا کہ ’اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس جہانگیری کے خلاف درخواست پر اعتراضات موجود تھے، رجسٹرار آفس کے اعترضات کے باوجود رٹ پٹشن پر نمبر کیسے لگ گیا؟ اس سوال پر دونوں طرف کے فریقین کے وکلا تیاری کرکے آئیں‘۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایک جج کو جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا‘، جسٹس طارق جہانگیری کے وکیل نے کہا کہ ’حال ہی میں جسٹس جمال خان کا فیصلہ ہے کہ کوئی جج دوسرے جج کے خلاف رٹ جاری نہیں کرسکتا‘، اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’اس کیس کے حقائق مختلف تھے جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں‘، ان ریمارکس کے بعد سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔