سپریم کورٹ ،جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی امور کی انجام دہی سے روکنے کا حکم معطل، فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری

پیر 29 ستمبر 2025 17:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 ستمبر2025ء)سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی امور کی انجام دہی سے روکنے کاحکم معطل کرتے ہوئے فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کردیے جبکہ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست پر اعتراضات موجود تھے، رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے باوجود رٹ پٹیشن پر نمبر کیسے لگ گیا ۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔

(جاری ہے)

دوران سماعت جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفت امتیاز عدالت میں پیش ہوئیں۔

ممبر اسلام آباد بار کونسل علیم عباسی نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے بھی اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کیا آپ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی فریق تھی مرکزی درخواست گزار جسٹس طارق محمود جہانگیری ہیں۔وکلا نے موقف اپنایا کہ اسلام آباد بار کونسل اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا اپنا طریقہ کار ہے، جب درخواستوں پر نمبر لگیں گے تب ہمارے سامنے فکس ہو جائیں گی۔

دوران سماعت جسٹس طارق محمود جہانگیری کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے اپنے ہی ہائی کورٹ کے جج کو عدالتی کام سے روکا ہو، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے حکم نامے میں طے شدہ قانون کو نظر انداز کیا گیا، جج کو کام سے روکنے کے حکم نامے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا، 10 جولائی 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف رٹ دائر ہوئی، ایک سال سے زائد وقت ہو چکا ہے رجسٹرار آفس کے اعتراضات ابھی تک باقی ہیں۔

منیر ملک نے کہا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف رٹ دائر ہونے کے بعد کچھ واقعات بھی پیش آئے جو عدالت کے سامنے رکھوں گا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز ٹرانسفر ہو کر آئے، 5 ججز نے ٹرانسفر کے خلاف 184 تھری کے تحت درخواست دائر کی، ججز ٹرانسفر کو درست قرار دیا گیا جس کے خلاف اپیل تاحال زیر التوا ہے۔منیر اے ملک نے کہا کہ جس جج کے تبادلیکے خلاف ججز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اسی چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے 16 ستمبر کو جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکا، جس درخواست پر طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکا گیا اس پر ابھی تک اعتراضات باقی ہیں اور دوسرے فریق کو سنا بھی نہیں گیا، 16 ماہ ہو گئے ابھی تک اعتراضات برقرار ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایک جج کو جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا، حال ہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل کا فیصلہ ہے کہ جج کے خلاف رٹ جاری نہیں کی جا سکتی۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اٴْس کیس کے حقائق مختلف تھے جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست پر اعتراضات موجود تھے، رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے باوجود رٹ پٹیشن پر نمبر کیسے لگ گیا اس سوال کے اوپر دونوں طرف کے فریقین کے وکلا تیاری کر کے آئیں۔

بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکنے کا حکم معطل کرتے ہوئے فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کر دیے۔ کیس کی سماعت (آج) منگل تک ملتوی کر دی گئی۔قبل ازیں، عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافی نے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے سوال کیا کہ کراچی یونیورسٹی نے آپ کی ڈگری منسوخ کردی کیا عدالت جائیں گی جسٹس طارق محمود جہانگیری نے جواب دیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے، حیرت کی بات ہے 34 سال بعد ڈگری منسوخ کر رہے ہیں دنیا کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری سے متعلق ایک شکایت جولائی 2023 میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائی گئی تھی جبکہ ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست رواں برس اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔