غزہ سٹی کے تمام فلسطینی وہاں سے نکل جائیں، اسرائیلی وزیر دفاع

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 2 اکتوبر 2025 15:40

غزہ سٹی کے تمام فلسطینی وہاں سے نکل جائیں، اسرائیلی وزیر دفاع
  • اسرائیل کا غزہ سٹی کے باشندوں کو نکل جانے کا حکم، ’جو وہاں رہیں گے انہیں عسکریت پسند سمجھا جائے گا‘

اسرائیل کا غزہ سٹی کے باشندوں کو نکل جانے کا حکم، ’جو وہاں رہیں گے انہیں عسکریت پسند سمجھا جائے گا‘

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے غزہ شہر کے تمام فلسطینی باشندوں کو اس شہر سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ’’آخری موقع‘‘ ہے اور جو فلسطینی وہاں رہیں گے، انہیں عسکریت پسند سمجھا جائے گا۔

گزشتہ قریب دو سال سے اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ میں تقریباﹰ پوری طرح تباہ ہو جانے والی غزہ پٹی کے سب سے بڑے شہری مرکز غزہ سٹی میں اسرائیلی فوج نے ستمبر کے وسط سے اپنا ایک وسیع تر زمینی آپریشن شروع کر رکھا ہے۔

(جاری ہے)

اس آپریشن کا مقصد وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت کے فیصلے کے مطابق پورے غزہ شہر کو اسرائیلی کنٹرول میں لینا ہے۔ ستمبر کے وسط سے لےکر اب تک اس شہر سے تقریباﹰ چار لاکھ فلسطینی گھر بار چھوڑ چکے ہیں جبکہ شہری آبادی کا ایک بڑا حصہ اب بھی وہاں مقیم ہے۔

اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں ویسٹ بینک کی حیثیت مرکزی کیسے؟

غزہ سٹی سے نکلنے کا ’آخری موقع‘

اس تناظر میں اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بدھ یکم اکتوبر کی رات اپنے ایک بیان میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ سٹی کے فلسطینی باشندوں کے لیے اس شہر کو چھوڑنے کا یہ ’’آخری موقع‘‘ ہے، جس کے بعد جو بھی فلسطینی اس شہر میں موجود رہیں گے، ’’انہیں عسکریت پسند سمجھا جائے گا۔

‘‘

ساتھ ہی وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ اس تنبیہ کے بعد بھی جو فلسطینی غزہ شہر میں مقیم رہیں گے، انہیں اسرائیلی فوج کی تازہ ترین عسکری پیش قدمی کے دوران ’’بھرپور طاقت‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وزیر دفاع کاٹز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ’’یہ غزہ سٹی کے رہائشیوں کے لیے بالکل آخری موقع ہے کہ وہ اس شہر سے نکل کر جنوبی غزہ پٹی کی طرف چلے جائیں۔

اس کے بعد جو بھی فلسطینی وہاں موجود رہیں گے، انہیں دہشت گرد اور دہشت گردوں کے حامی تصور کیا جائے گا۔‘‘

مزید کم از کم 21 فلسطینی ہلاک

سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ میں غزہ پٹی کی حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق اب تک 66 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

اسی دوران غزہ پٹی میں دیر البلح سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق مختلف ہسپتالوں کے طبی کارکنوں نے تصدیق کی کہ اس فلسطینی ساحلی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران مزید کم از کم 21 فلسطینی مارے گئے ہیں۔

تازہ رپورٹوں کے مطابق غزہ پٹی کے شمال سے جنوب کی طرف جانے والی آخری بڑی شاہراہ، الرشید اسٹریٹ اس وقت جنوب کی طرف جانے والے فلسطینیوں کے قافلوں سے بھری پڑی ہے۔

یہ فلسطینی اپنے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پیدل بھی سفر میں ہیں اور ٹرکوں اور گاڑیوں سمیت مختلف سواریوں پر اپنا بچا کھچا سامان لادے ہوئے بھی۔

کل بدھ کے روز اسرائیلی فوج نے یہ ساحلی شاہراہ جنوب سے شمال کی طرف ٹریفک اور فلسطینیوں کی نقل و حرکت کے لیے بند کر دی تھی۔ اب وہاں سے صرف غزہ سٹی سے نکلنے والوں کو جنوب کی طرف جانے کی اجازت ہے۔

ٹرمپ امن منصوبے پر حماس کا ردعمل

امریکی صدر ٹرمپ نے رواں ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ مل کر واشنگٹن میں غزہ پٹی کے لیے اپنا جو نیا امن منصوبہ پیش کیا تھا، اس کی بین الاقوامی سطح پر تو کافی حمایت کی گئی ہے، تاہم فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس ابھی تک اسے قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔

صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ حماس کو یہ غزہ امن منصوبہ لازمی قبول کرنا چاہیے، ورنہ اسے ’’انتہائی سخت نتائج‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس بارے میں حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے جمعرات دو اکتوبر کے روز نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو تفصیلات کا ذکر کیے بغیر بتایا کہ اس امن منصوبے کے کچھ نکات ’’ناقابل قبول‘‘ ہیں اور ان میں ترمیم کی جانا چاہیے۔

ساتھ ہی حماس کے اس عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ تازہ امن منصوبے پر حماس کا یہ ابتدائی اور غیر سرکاری ردعمل ہے جبکہ باضابطہ ردعمل دیگر فلسطینی گروپوں کے ساتھ مشاورت کے بعد سامنے آئے گا۔