ڈالر مہنگا کرنے سے برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا ،اصل رکاوٹ پالیسی ساز ہیں،گوہر اعجاز

پالیسی ساز صرف روپے کی قدر کم کرنے کے بجائے پیداواری لاگت اور بزنس ماحول بہتر بنانے پر توجہ دیں

اتوار 5 اکتوبر 2025 15:50

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اکتوبر2025ء)سابق نگراں وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے ماضی میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھا دینے کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈالر مہنگا کرنے سے برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، اصل رکاوٹ پالیسی ساز ہیں،پاکستان میں 2018 سے 2022 کے درمیان ڈالر کی قیمت 140 روپے سے بڑھ کر 280 روپے تک جا پہنچی لیکن اس کے باوجود برآمدات 29 ارب ڈالر سے کم ہوکر 27 ارب ڈالر پر آ گئیں، اگر صرف روپے کی قدر گرانے سے برآمدات بڑھنی ہوتیں تو پاکستان کا تجارتی خسارہ ختم ہو جاتا، مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق گوہر اعجاز نے کہا کہ برآمدی صنعت سب سے زیادہ خام مال، مشینری اور کیمیکلز درآمد کرتی ہے، ڈالر مہنگا ہونے سے ان کی لاگت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

(جاری ہے)

یوں برآمدی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں مقابلے کے قابل ہی نہیں رہتیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں توانائی کا بحران، مہنگی بجلی و گیس اور بار بار بدلنے والی حکومتی پالیسیاں برآمدات کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

گوہر اعجاز کے مطابق پاکستان کی برآمدات زیادہ تر ٹیکسٹائل پر انحصار کرتی ہے، جبکہ آئی ٹی، فارما، انجینئرنگ اور فوڈ پراسیسنگ جیسے شعبے نظر انداز کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس خطے کے دیگر ممالک نے اپنی برآمدات میں تنوع پیدا کر کے عالمی مارکیٹ میں جگہ بنائی ہے۔انہوں نے کہا کہ برآمد کنندگان کے ری فنڈز اور ڈیوٹی ڈرابیک کی رقم مہینوں تک پھنسے رہتی ہے جس سے ان کا سرمایہ جام ہو جاتا ہے اور وہ نئے آرڈرز لینے سے کتراتے ہیں۔

اس کے علاوہ لاجسٹکس اور کسٹمز کے مسائل وقت پر آرڈرز کی ترسیل میں رکاوٹ بنتے ہیں جس سے پاکستان کا امیج بھی متاثر ہوتا ہے۔گوہر اعجاز نے تجویز دی ہے کہ برآمدی صنعت کو خطے کے مطابق سستی اور وافر توانائی فراہم کی جائے، برآمدی سیکٹر کے لیے طویل مدتی پالیسی وضع کی جائے تاکہ سرمایہ کار کا اعتماد بحال ہو۔ آئی ٹی اور دیگر نان ٹیکسٹائل شعبوں کو خصوصی مراعات دے کر برآمدات میں تنوع لایا جائے، سیلز ٹیکس ری فنڈز اور ڈیوٹی ڈرابیک کی فوری ادائیگی یقینی بنائی جائے،کسٹمز اور لاجسٹکس کے مسائل حل کر کے عالمی خریداروں کو بروقت اور معیاری سپلائی دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ تب ہی ممکن ہے جب حقیقی رکاوٹیں دور کی جائیں اور پالیسی ساز صرف روپے کی قدر کم کرنے کے بجائے پیداواری لاگت اور بزنس ماحول بہتر بنانے پر توجہ دیں۔