اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اکتوبر 2025ء) دہلی پولیس نے بتایا کہ آج پیر چھ اکتوبر کی صبح سپریم کورٹ میں کارروائی کے دوران ایک وکیل نے اپنے اسپورٹس شوز نکال کر چیف جسٹس گاوائی پر پھینک دیے۔ گاوائی کا تعلق ہندوؤں میں انتہائی پسماندہ دلت طبقے سے ہے، حالانکہ وہ خود کو بھارت کے آئین ساز بھیم راؤ امبیڈکر کا پیروکار بتاتے ہیں۔
کِشور کو فوراً سکیورٹی اہلکاروں نے پکڑ لیا۔ بعد میں انہیں سپریم کورٹ کے سکیورٹی یونٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ عدالت سے باہر لے جاتے وقت انہوں نے نعرہ لگایا، ''سناتن (ہندو) دھرم کا اپمان (توہین)، نہیں سہے گا ہندوستان۔‘‘
ایک سینئر پولیس افسر نے کہا، ''دہلی پولیس سپریم کورٹ کے رجسٹرار جنرل کے ساتھ رابطے میں ہے اور معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے تاکہ کسی قانونی کارروائی سے پہلے حقائق سامنے لائے جا سکیں۔
(جاری ہے)
ابتدائی تحقیقات میں سامنے آیا کہ وکیل راکیش کِشور چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر ناخوش تھے، جو حالیہ سماعت میں کھجوراہو مندر کمپلیکس میں بھگوان وشنو کے بت کی بحالی سے متعلق عرضی کی سماعت کے دوران دیے گئے تھے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق جوتا پھینکنے کے واقعے کے باوجود چیف جسٹس گاوائی ایک مقدمے کی سماعت کرتے رہے۔ انہوں نے کہا، ''میں ان چیزوں سے متاثر نہیں ہوتا۔
‘‘واقعے کی شدید مذمت
بھارتی چیف جسٹس پر جوتا پھینکنے کے واقعے کو ایک ''بدترین نفرت والا عمل‘‘ قرار دیتے ہوئے تقریباﹰ تمام حلقوں نے اس کی مذمت کی ہے۔
سماجی کارکن نوید حامد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''چیف جسٹس پر بزدلانہ حملہ تیزی سے پھیلتی نفرت سے متعلق ایک انتباہی گھنٹی ہے، جو سپریم کورٹ کے گلیاروں تک بھی پہنچ چکی ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''اس نفرت انگیز حملے کی مکمل اور تفصیلی تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ چیف جسٹس پر حملے کی سازش کے پیچھے کی سچائی کا پردہ فاش ہو سکے۔‘‘
بھارت
کے معروف وکیل پرشانت بھوشن نے ایک ٹویٹ میں کہا، ''یہ ایک انتہائی شرمناک کوشش ہے، جو ایک برہمن ذہنیت والے وکیل نے چیف جسٹس آف انڈیا کو ڈرانے کے لیے کی ہے۔ یہ جرم عدالت کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ وکیل کے خلاف قانونی کارروائی ہونا چاہیے۔‘‘کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجیئن نے کہا، ''یہ تشویشناک واقعہ سنگھ پریوار کی طرف سے پھیلائے جانے والے نفرت کے مظاہر کی عکاسی کرتا ہے۔ اسے صرف ایک انفرادی فعل کے طور پر رد کرنا بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے ماحول کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''جب فرقہ وارانہ انتہا پسندی حتیٰ کہ چیف جسٹس آف انڈیا کو بھی نشانہ بنانے کی ہمت کرتی ہے، تو یہ عمل اس تقسیم انگیز اور زہریلی سیاست کے سنگین خطرے کو بے نقاب کرتا ہے، جس کا مقابلہ بغیر کسی بھی ہچکچاہٹ کے کرنا ضروری ہے۔‘‘
اپوزیشن کانگریس پارٹی کی قومی ترجمان ڈاکٹر شمع محمد نے کہا ، ''جب ایک دلت چیف جسٹس محفوظ نہیں، تو اسی سے عام دلت شہریوں کی صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بی جے پی - آر ایس ایس کی نفرت انگیز سیاست نے یہی کام ملک کے ساتھ کیا ہے۔‘‘سپریم کورٹ
ایڈووکیٹس-آن-ریکارڈ ایسوسی ایشن نے ایک قرارداد منظور کرکے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور اسے عدالتی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔بت کی بحالی کا معاملہ کیا ہے؟
چیف جسٹس
گاوائی نے دو ججوں کے بینچ کی صدارت کرتے ہوئے 16 ستمبر کو جاواری مندرمیں سات فٹ بلند بھگوان وشنو کے خراب حال بت کی تعمیر نو کے لیے دائر کردہ عرضی کو مسترد کر دیا تھا۔مدھیا پردیش میں یہ مندر 1050 سے 1075 عیسوی کے درمیان تعمیر ہوا تھا اور کھجوراہو مندر کمپلیکس کا حصہ ہے۔ کھجوراہو کمپلیکس یونسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
چیف جسٹس
گاوائی نے درخواست گزار سے کہا تھا، ''یہ محض پبلسٹی انٹریسٹ سے متعلق مقدمہ ہے … جائیے اور خود دیوتا سے کہیے کہ کچھ کریں۔ اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ بھگوان وشنو کے مضبوط عقیدت مند ہیں، تو آپ دعا کریں اور کچھ میڈیٹیشن کریں۔‘‘ان کے ان ریمارکس پر بعض حلقوں نے اعتراض کیا، جس کے بعد گاوائی نے کہا تھا کہ وہ ''تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں‘‘ اور وضاحت کی تھی کہ ان کے ریمارکس اس تناظر میں دیے گئے تھے کہ اس مندر کی دیکھ بھال کا اختیار بھارتی آثار قدیمہ کے پاس ہے۔
ادارت: مقبول ملک