مخصوص نشستوں کا کیس؛ حکومتی اپیل پر جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ جاری

بظاہر بینچ کی تشکیل ن لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی اکثریت کی بنیاد پر کی گئی، یہی جماعتیں ہمارے سامنے بطور نظرثانی درخواست گزار موجود ہیں، بینچ حکومتی منشا کا عکس اور عدالتی آزادی پر سوالیہ نشان ہے؛ متن

Sajid Ali ساجد علی پیر 6 اکتوبر 2025 17:30

مخصوص نشستوں کا کیس؛ حکومتی اپیل پر جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 06 اکتوبر2025ء ) سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے حکومتی اپیل پر جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اکثریتی فیصلے سے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کردیا۔ تفصیلات کے مطابق اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، تینوں نظر ثانی درخواستیں 9 جولائی 2024 کے مختصر فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھیں، صرف الیکشن کمیشن نے تفصیلی فیصلے کی بنیاد پر اضافی درخواستیں جمع کروائیں، تمام دلائل تفصیلی فیصلے میں پہلے ہی نمٹائے جا چکے ہیں، وکلا نے مقدمہ دوبارہ دلائل کے ذریعے کھولنے کی کوشش کی، نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، نیا مقدمہ نہیں کھولا جا سکتا، صرف وہ فیصلے نظرثانی کے قابل ہوتے ہیں جن میں واضح قانونی غلطی ہو، معمولی بے ضابطگی یا اختلافِ رائے نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔

(جاری ہے)

ججز کا نوٹ میں کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے حتمی اور غور و فکر کے بعد دیے جاتے ہیں، نظرثانی اپیل کی طرح نہیں ہوتی، اسے معمول کی کارروائی نہیں بنایا جا سکتا، ہر فریق اگر عدم اطمینان پر نظرثانی لے آئے تو نظام عدل کا توازن بگڑ جائے گا، اکثر نظرثانی درخواستیں محض عدم اطمینان کی بنیاد پر دائر کر دی جاتی ہیں، موجودہ درخواستیں بھی ایسی ہی ہیں جن میں کوئی ٹھوس قانونی بنیاد پیش نہیں کی گئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے تفصیلی فیصلے پر کوئی مخصوص اعتراض نہیں اٹھایا، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے صرف مختصر فیصلے کو چیلنج کیا، درخواستیں 13 جولائی 2024 کو دائر ہوئیں، جبکہ تفصیلی فیصلہ 23 ستمبر کو جاری ہوا، طویل وقفے کے باوجود کوئی نیا مؤقف پیش نہیں کیا گیا۔

اختلافی نوٹ میں بینچ کی تشکیل کو عدالتی اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ جب اصل مقدمہ 13 رکنی بینچ نے سنا تھا تو ان میں سے 5 ججز موجودہ بینچ میں شامل نہیں، موجودہ بینچ میں شامل نہ ہونے والے ججز میں فیصلے کے مصنف جج بھی شامل ہیں، بینچ کی یہ تبدیلی آئین کے آرٹیکل 191 اے کے تحت کی گئی، آرٹیکل 191 اے کو 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنایا گیا، ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان آئینی بینچ کے ججز نامزد کرتا ہے، جوڈیشل کمیشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین بھی شامل کیے گئے ہیں، آئینی ترمیم کے نتیجے میں جوڈیشل کمیشن میں اکثریت حکومت اور سیاسی جماعتوں کی ہوگئی، جوڈیشل کمیشن میں سیاسی اکثریت نے عدالتی غیرجانبداری اور شفافیت پر سوال اٹھائے۔

اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ بینچ کی تشکیل بظاہر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اکثریت کی بنیاد پر کی گئی، ایسی تشکیل عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف ہے، اگر بینچ کی تشکیل، شفافیت پر سوال اٹھے تو پورا عدالتی عمل مشکوک ہو جاتا ہے، آئین کے تحت جوڈیشل کمیشن اور اس کی کمیٹی کا فرض ہے وہ غیر جانبدار بینچ تشکیل دیں، عدالتی بینچز کا قیام آئینی تقاضوں اور شفافیت کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیئے۔