مہاراشٹرا جیل میں مسلمان قیدی کی پراسرارموت کی پانچ سال بعد عدالتی تحقیقات کا حکم

منگل 7 اکتوبر 2025 14:10

ناسک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 اکتوبر2025ء) بھارت میں انسانی حقوق کے کمیشن نے ریاست مہاراشٹرا کی ناسک سینٹرل جیل میں 2020میں ایک مسلمان قیدی، اصغر علی منصوری، کی پراسرارموت کی 5سال بعد تحقیقات کا حکم دیا ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق کمیشن نے تحقیقات کا حکم نیوز ویب سائٹ ’’دی وائر‘‘کی طرف سے اس کیس پر تفصیلی رپورٹ شائع ہونے کے بعد دیاہے ۔

اطلاعات کے مطابق31سالہ اصغر علی منصوری نے مبینہ طور پر جیل حکام کی جانب سے مسلسل تشدد، ہراسانی اورقید تنہائی میں رکھنے کے خلاف احتجاجا خودکشی کی تھی۔ منصوری نے خودکشی سے قبل ایک خط پولیتھین بیگ میں لپیٹ کر نگل لیا تھا، جسے بعد ازاں پوسٹ مارٹم کے دوران اس کے معدے سے برآمد کیا گیا۔ اس خط میں منصوری نے پانچ جیل اہلکاروں باوسکر، چوان، سرپاڈے، گائٹے اور کارکر پروحشیانہ تشدد اور ذہنی اذیت دینے کے الزامات عائد کیے تھے۔

(جاری ہے)

تاہم، حیران کن طور پر یہ تحریر منصوری کی’’ڈائنگ ڈیکلیریشن‘‘ کے طور پر قبول نہیں کی گئی اور ریاستی پولیس نے آج تک ان اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی ہے۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس دشینت سنگھ کی قیادت میں انسانی حقوق کے کمیشن کے ایک تحقیقاتی ٹیم ناسک پہنچی ہے۔ ٹیم کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات میں تاخیر کی بڑی وجہ ریاستی حکام کاآپس میں عدم غیر تعاون رہا ہے اور کمیشن کو آج تک مجسٹریل انکوائری رپورٹ بھی نہیں دی گئی ہے ۔

اصغر علی منصوری کے والد ممتاز علی نے اپنے بیٹے کی موت کے بارے میں پولیس کے بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ منصوری کو جیل میں قتل کیاگیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ان کے بیٹے کی موت کے بعد چھ قیدیوں نے چیف جسٹس ممبئی ہائی کورٹ کو خط لکھ کر جیل میں قیدیوں پر ہونے والے مظالم کی تفصیلات فراہم کیں، مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔قیدیوں کے حقوق کے کارکن، واحد شیخ نے منصوری کی موت کو "دوران حراست تشدد اور ادارہ جاتی غفلت"کی واضح مثال قراردیاہے ۔

انہوں نے کہا کہ خودکشی سے پہلے تحریری طور پر نامزد کیے گئے افراد کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہ ہونا عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ایڈووکیٹ وجے ہیری ماتھ نے جو منصوری کے اہل خانہ کی نمائندگی کر رہے ہیں کہا ہے کہ آئین کی دفعہ 176(1A)کے تحت ہر حراستی موت کی مجسٹریل تحقیقات قانونی طور پر لازمی ہے، مگر نہ تو اس واقعے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی اور نہ ہی اہل خانہ کو دی گئی۔