پی ڈی پی نے زمینوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون ساز اسمبلی میں نیا بل جمع کرایا

جمعرات 9 اکتوبر 2025 15:27

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اکتوبر2025ء) غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی نے جموں و کشمیر لینڈ رائٹس اینڈ ریگولرائزیشن بل2025جسے’’ اینٹی بلڈوزر بل‘‘ بھی کہا جاتا ہے، قانون ساز اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں بحث کے لیے جمع کرایا ہے تاکہ لوگوں کی جبری بے دخلی اور زمینوں پر قبضے کو روکا جا سکے۔

کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق محبوبہ مفتی نے سرینگر میں صحافیوں کو بتایا کہ مجوزہ قانون سازی میں ایسے افراد، خاندانوں اور اداروں کی اراضی کو باقاعدہ کرنے کی تجویزدی گئی ہے جن کے پاس تین دہائیوں سے زائد عرصے سے زمینوں کا قبضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کا مقصد جموں و کشمیر میں ملکیت کے حقوق کو تحفط دینا، جبری بے دخلی کو روکنا اور سماجی و اقتصادی استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

(جاری ہے)

محبوبہ مفتی نے خاص طور پر گلمرگ اوردیگرعلاقوں میں زمینوں اور لیز کے بڑھتے ہوئے بحران کو اجاگرکیاجہاں لینڈ گرانٹ رولز2022کے نفاذ سے پرانے لیزوں کی تجدید کو روک دیاگیا ہے جس سے درجنوں ہوٹلوں کو سرکاری نیلامی کے ذریعے بے دخلی یا قبضے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ گلمرگ میں نیڈوس اور ہائی لینڈز پارک جیسے تاریخی اثاثوںسمیت تقریبا 60ہوٹلوں کو گلمرگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے نوٹسز بھیجے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام نے بہت سے مقامی ہوٹل مالکان کو مالی اور قانونی غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ زمین اور لیز ریگولرائزیشن پر واضح پالیسی کی عدم موجودگی کشمیر کے شعبہ سیاحت کو نقصان پہنچا رہی ہے جس سے روزگار اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہاکہ مودی کی زیرقیادت بھارتی حکومت ترقی کے نام پر کشمیریوں کو ان کی زمینوں اور ذریعہ معاش سے بے دخل کرنے کے لیے بلڈوزر اور قوانیں کا استعمال کررہی ہے۔

پی ڈی پی کی سربراہ نے کہا کہ ان کی پارٹی کے رکن اسمبلی نے باضابطہ طور پر اسمبلی سیکرٹریٹ میں بل جمع کرایا ہے جس میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ یا تو اس پر عمل درآمد کرے یا ایسی ہی قانون سازی کرے جس کی ان کی پارٹی حمایت کرے گی۔پی ڈی پی کا یہ اقدام مقبوضہ جموں وکشمیرمیں زمین کی ملکیت کے قوانین کو تبدیل کرنے کی بھارتی حکومت کی کوششوں پر بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی کرتا ہے جسے مقامی لوگ دفعہ370اور 35-Aکی منسوخی کے بعد علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے وسیع تر ایجنڈے کا حصہ سمجھتے ہیں۔