واشنگٹن ڈی سی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 اکتوبر2025ء) وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہاہے کہ زرعی شعبہ قومی معیشت کے تقریباً ایک چوتھائی حصے پر مشتمل اور لاکھوں چھوٹے کاشتکاروں کے روزگار کا ذریعہ ہے، حکومت کا ہدف شعبہ زراعت میں مداخلت کے بجائے سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ نجی شعبہ زیادہ مؤثر انداز میں اس کی قیادت کرسکے، چاول کی
برآمدات کا حجم اس سال تقریباً ساڑھے تین ارب
ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔
انہوں نے یہ بات منگل کوواشنگٹن ڈی سی میں عالمی بینک گروپ کے سالانہ اجلاس کے موقع پرمنعقدہ ایک اعلیٰ سطح کے مباحثے میں کہی۔ایگری کنیکٹ: فارم، فرمز اینڈ فنانس فار جابز”کے موضوع پرمنعقدہ مباحثہ میں
عالمی بینک کے صدر اجے بنگا، یوکرین کے وزیرِ خزانہ سرگی مارچینکو، اور گنی کی وزیرِ زراعت ماریاما سائر سیلا سمیت
دنیا بھر کے پالیسی سازوں اور ماہرین نے شرکت کی۔
(جاری ہے)
اجلاس کا مقصد اُن خاندانی فارمز کے استحکام پر تبادلہ خیال کرنا تھا جو
دنیا کی خوراک کا تقریباً 80 فیصد پیدا کرتے ہیں۔مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے
پاکستان کی معیشت میں زراعت کے مرکزی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شعبہ قومی معیشت کے تقریباً ایک چوتھائی حصے پر مشتمل ہے اور لاکھوں چھوٹے کاشتکاروں کے روزگار کا ذریعہ ہے جن کے پاس پانچ ایکڑ سے کم زمین ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کا ہدف شعبہ زراعت میں مداخلت کے بجائے سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ نجی شعبہ زیادہ مؤثر انداز میں اس کی قیادت کرسکے۔انہوں نے زرعی پیداوار میں اضافے، مالیاتی سہولتوں کی فراہمی اور زرعی ویلیو
چین کو مضبوط بنانے کے لیے جاری اقدامات کی تفصیل بیان کی۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ پائلٹ منصوبوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، جن میں بیج، کھاد، جدید زرعی خدمات اور
سیٹلائٹ کے ذریعے فصلوں کی نگرانی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
ان اقدامات سے نہ صرف پیداوار اور آمدن میں اضافہ ہوا بلکہ چھوٹے کسانوں کو باضابطہ قرضوں کی فراہمی کے ذریعے درمیانی افراد پر انحصار میں کمی آئی ہے۔وزیرخزانہ نے زور دیا کہ ایسے منصوبوں کو مالیاتی شعبے کی شمولیت اور ادارہ جاتی تعاون کے ذریعے بڑے پیمانے پر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت بینکوں کو زرعی قرضوں میں اضافے کی ترغیب دینے کے لیے فرسٹ لاس گارنٹی، سبسڈی والے قرض اسکیمز اور بلا ضمانت قرضوں کی سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔
ان اقدامات کا مقصد ایک پائیدار نظام تشکیل دینا ہے جو کسانوں کو بااختیار بنائے اور شعبہ زراعت کی طویل المدتی ترقی کو یقینی بنائے۔وزیر خزانہ نے موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ زراعت اور
موسم ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، اور
پاکستان اس شعبے میں موسمیاتی لچک پیدا کرنے کے لیے فعال اقدامات کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ سیلابوں سے چاول کی فصل کو ہونے والے
نقصان نے اس چیلنج کی سنگینی کو نمایاں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ
پاکستان اورعالمی بینک کے درمیان دس سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت ایک تہائی پروگرام موسمیاتی لچک اور کاربن کے اخراج میں کمی پر مرکوز ہے۔ وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ فنڈز دستیاب ہیں مگر بدلتے موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے اُن کے بروقت استعمال کو تیز کرنا ضروری ہے۔محمد اورنگزیب نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ حکومت زرعی تحقیق اور
ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہی ہے، اور اس وقت تقریباً ایک ہزار پاکستانی طلبہ
چین میں اعلیٰ زرعی
تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
اس اقدام کا مقصد جدید زرعی تحقیق، مشینی کاشتکاری اور بین الاقوامی تجربات سے استفادہ کرنا ہے۔نجی شعبے کی شمولیت سے متعلق سوال پر سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ حکومت ڈیریگولیشن کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے کولڈ
چین انفراسٹرکچر، گودام سازی، اور ویلیو ایڈیڈ زراعت میں نجی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ
پاکستان کی زرعی
برآمدات، خصوصاً چاول، میں نمایاں اضافہ متوقع ہے اور صرف چاول کی
برآمدات کا حجم اس سال تقریباً ساڑھے تین ارب
ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت ایک مضبوط،
ٹیکنالوجی سے لیس اور شمولیتی زرعی معیشت کے قیام کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مکمل ویلیو
چین کو شامل کیا جائے تو زراعت کا قومی معیشت میں حصہ تقریباً 40 فیصد بنتا ہے، اور حکومت کسانوں کو مالی و ادارہ جاتی سہولیات فراہم کرتے ہوئے درمیانی کرداروں کے خاتمے کی جانب بتدریج پیش رفت کر رہی ہے۔
اس سے قبل سینیٹر محمد اورنگزیب نے
واشنگٹن ڈی سی میں منعقدہ جی 24 وزراء و گورنرزکے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے
پاکستان میں حاصل ہونے والے
معاشی استحکام پر روشنی ڈالی جو ٹیکس اصلاحات، توانائی، سرکاری اداروں کی
نجکاری اور انتظامی ڈھانچے میں بہتری جیسے بنیادی اقدامات سے ممکن ہوا ہے۔انہوں نیعالمی بینک کی جانب سے
پاکستان میں ٹیرف اصلاحات کے آغاز میں تعاون پر شکریہ ادا کیا، جس سے برآمدی مسابقت اور اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے علاقائی تجارتی راہداریوں اور عالمی تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ وزیر خزانہ نے
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے
پاکستان کی اصلاحاتی پالیسیوں پر عملدرآمد کو سراہا۔