بھارت میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی ، مودی حکومت کا امن و سلامتی اور ترقی کا انتخابی بیانیہ بے نقاب

جمعرات 16 اکتوبر 2025 23:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اکتوبر2025ء) بھارت میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی نے مودی حکومت کے امن و سلامتی اور ترقی کے انتخابی بیانیے پر سوال اٹھا دیے ہیں ۔ اروناچل پردیش کے ضلع چانگ لانگ میں ناگا شدت پسندوں کے آسام رائفلز کے کمپنی آپریشن بیس پرتازہ ترین حملے میں آسام رائفلز کے کئی اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس حملے سے آسام۔

ناگالینڈ اوراروناچل کوریڈور کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کی مخدوش صورتحال ظاہرہوتی ہے۔اس سے قبل گزشتہ ماہ ستمبر میں منی پور کے علاقے بشنو پور میں عسکریت پسندوں نے آسام رائفلز کے قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا جس میں دو اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے تھے۔ پیپلز لبریشن آرمی نے اس حملے کی کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

(جاری ہے)

رواں سال جولائی میں آسام پولیس نے سرحدی اضلاع میں عسکریت پسندوں کی بھرتی اور رسد فراہم کرنے پر یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام انڈپینڈنٹ اور نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ۔

کھپلنگ یونگ آنگ کے22کیڈروں کو گرفتار کیا۔رواںماہ آسام حکومت نے عسکریت پسندوں کے مسلسل خطرات اور پریشان کن حالات کا حوالہ دیتے ہوئے تینسوکیا، چرائیدیو اور سیوا ساگر اضلاع میں کالے قانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ میں مزید چھ ماہ کے لیے توسیع کر دی ہے۔ ناگا لینڈ میں شورش 1940-50کی دہائی میں شروع ہوئی تھی، جب ناگا لیڈروں نے آزادی کا مطالبہ کیااور ناگا نیشنل کونسل اور بعد میں نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈتشکیل دی ۔

نیشنل سوشلسٹ کونسل 1997سے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے تاہم یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام انڈپینڈنٹ اورنیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ۔کھپلنگ یونگ آنگ جیسے دھڑے علاقے میں اپنی مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگست 2015 سے نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ۔کھپلنگ یونگ آنگ کی اروناچل پردیش، آسام اور ناگالینڈ کے سرحدی علاقوں میں سرگرمیاں جاری ہیں۔

اکتوبر 2024 اور اکتوبر 2025 کے دوران 10سے زیادہ جھڑپوں میں بھارتی فورسز کے کم سے کم 35اہلکار ہلاک اور 60سے زائدزخمی ہوئے ہیں۔ بھارتی فوج کی بھاری نفری کی تعیناتی اور امن مذاکرات کے باوجود ناگا عسکریت پسندوں کے حملوں نے حکومت کے صورتحال میں بہتری یا عسکریت پسندی کی روک تھام کے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے ۔"گریٹر ناگالم" کے قیام ، اپنا الگ جھنڈا اور آئین " جیسے بنیادی مطالبات تسلیم نہ کئے جانے سے مسلسل عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے ۔

باربار جنگ بندی معاہدوں سے انحراف اور امن مذاکرات میں سست پیش رفت سے مقامی لوگوں کا حکومت پر اعتماد ختم ہو گیاہے ۔آسام میںآئندہ سال مارچ-اپریل میں ہونے والے انتخابات قریب آنے سے بے روزگاری، نسلی کشمکش اورنظم نسق کے فقدان کے باعث بھی عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے سے بی جے پی کے "امن، سلامتی اور ترقی" کا انتخابی بیانیے کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے۔

ان واقعات کو بی جے پی کی قیادت پر عدم اعتماد اور دیرپا استحکام میں حکومت ناکامی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔حزب اختلاف کی جماعتیں اس مخدوش صورتحال کو بی جے پی کی شمال مشرقی ریاستوں سے متعلق حکمت عملی کی ناکامی قراردے سکتی ہیں۔سرحدی اضلاع میں، رائے دہندگان ہر حملے کو اس بات کے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں کہ حکومت نے سیاسی مفاد کیلئے امن معاہدہ کیاتھا جسے حقیقی طورپر نافذ نہیں کیا گیا۔

جس کے باعث بی جے پی کے گڑھ سمجھے جانیوالے بالائی آسام اور سرحدی علاقوں میں اسے دھچکا پہنچ سکتاہے ۔انتخابات سے قبل عسکریت پسندوں کے حملوں سے بی جے پی حکومت ناکامیوں اور قیام امن کے جھوٹے وعدوں پر اسے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ،کیونکہ بی جے پی حکومت دس سال سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہنے کے باوجود بھی امن و استحکام یقینی بنانے میں مکمل طورپر ناکام رہی ہے ۔