ایچ ون بی ویزا کے حوالے سے امریکی تحقیقات سے بھارت کا استحصالی طرز عمل بے نقاب

اتوار 19 اکتوبر 2025 00:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 اکتوبر2025ء) امریکہ H-1Bویزا دھوکہ دہی کی تحقیقات کر رہا ہے جس سے غیر متناسب طور پر بھارتی شہریوں کوفائدہ پہنچ رہا ہے، امریکی شہری ملازمتوں سے محروم ہو رہے ہیں،ٹیکنالوجی کی فرموں کے ذریعے بھارت کا استحصالی طرز عمل بے نقاب ہو رہا ہے اور عوامی غصہ بڑھ رہا ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق امریکی H-1Bویزا پروگرام کا جو انتہائی ہنر مند غیر ملکی پیشہ ور افراد کو راغب کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، بھارتی آئی ٹی فرموں اور ایگزیکٹوز نے منظم طریقے سے استحصال کیا ہے۔

اس وقت مجموعی طورپر H-1Bویزا ہولڈرز میں سے 71 فیصد بھارتی ہیں جو کسی بھی دوسری قومیت سے بہت زیادہ ہیں ۔ ان میں چینی صرف 11.7فیصد فلپائنی 1.3فیصد ، کینیڈین 1.1فیصد ، جنوبی کورین ایک فیصد جبکہ پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

(جاری ہے)

یہ غیر متناسب نمائندگی سلیکون ویلی میں بھارت کے غلبے کو نمایاں کرتی ہے، جہاں بھارتی ایگزیکٹوز ایمیزون، مائیکروسافٹ،ایپل،گوگل،میٹا، ٹاٹاکنسلٹنسی سروس،چیز،جے پی موگن،والمارٹ، کاگنیزنٹ اورڈی لوئٹی جیسی اعلیٰ ٹیک فرموںمیں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔

امریکی شہریوں کی جگہ H-1Bویزا ہولڈرزکو ملازمت دینے کی امریکی سینیٹرز چک گراسلے (R)اور ڈک ڈربن (D) نے تحقیقات شروع کی ہیں۔ تحقیقات امریکی شہریوں کی جگہ بھارتیوں کو ملازمت دینے، اجرت پر عملدرآمد، ملازمت سے برطرفی کے طریقوں میں شفافیت اور ویزا دھوکہ دہی پر مرکوز ہیں۔ شواہد بتاتے ہیں کہ بھارتی ٹیک فرمیں منظم طریقے سے اہل امریکی شہریوں پربھارتی شہریوں کو ترجیح دیتی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری اور سماجی بے چینی پیداہوتی ہے۔

Nanosemantics Incجیسے معاملات سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی فرمیں H-1B پروگرام میں ہیرا پھیری کے لیے متعدد فائلنگ، جعلی ملازمت کی پیشکش اور شیل اداروں کا استحصال کرتی ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف بھارتی نیٹ ورکس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہا ہے جبکہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے زیادہ ویزا فیس عائد کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے ایچ ون بی ویزا پر ایک لاکھ امریکی ڈالرفیس عائد کرنا منظم بھارتی دھوکہ دہی اور ٹیک ملازمتوں پر اجارہ داری پر امریکی عوام کے غم و غصے کی عکاسی کرتا ہے۔

ٹیک کمپنیوں میں بھارتی غیر متناسب طور پراعلیٰ عہدوں پر قابض ہیں جو اکثر اہل امریکیوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ یہ رجحان اقرباء پروری، جانبداری اور بھارت کی طرف سے امریکی روزگار کے نظام کے منظم استحصال کی نشاندہی کرتا ہے جس سے بھارت کے بارے میں عوام کے تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ وہ کاروبارکے اخلاقی طریقوں پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔

تحقیقات سے امریکی عوام کی بڑھتی ہوئی ناراضگی کی عکاسی ہوتی ہیں۔ H-1Bپروگرام پر بھارتی غلبہ اب کوئی معمولی معاشی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک سیاسی اور سماجی تشویش بن چکا ہے جس سے بھارت کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے اور بھارت-امریکہ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ پاکستان کے لئے جس کے پاس ہنرمند افراد کی کمی نہیں ہے، ایک سنہری موقع ہے ۔

H-1Bویزا ہولڈرز میں پاکستان کی نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے جو نہ ہونے کے برابرہے۔ بھارتی فرموں کی موجودہ تحقیقات پاکستان کو بھارت کے اجارہ دارانہ طریقوں، ویزا فراڈ اور غیر منصفانہ بھرتیوں کو اجاگر کرنے اور امریکہ میں قائم ٹیک کمپنیوں میں پاکستانی پیشہ ور افرادکو منصفانہ مواقع کی وکالت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔بھارت کا H-1Bویزا پروگرام کا استحصال اس کی معاشی موقع پرستی اور عالمی جوڑ توڑ کے رجحانات کو بے نقاب کرتا ہے۔

امریکہ میں عوامی اور سیاسی ردعمل بیرون ملک بھارت کے غیر اخلاقی طریقوں کا واضح اشارہ ہے۔ پاکستان بھارت کی اجارہ داری اور دھوکہ دہی کے طریقوں کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کرنے کے لیے سفارتی، سیاسی اور معلوماتی چینلز کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔H-1Bویزوں پر بھارت کی اجارہ داری، منظم ویزا دھوکہ دہی اور عالمی ٹیک فرموں میں اعلی انتظامی عہدوں پر قبضہ میزبان ملک کی فلاح و بہبود کے استحصال اورتوہین کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکی تحقیقات پاکستان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھارت کی عالمی ساکھ کو چیلنج کرنے، مساوی مواقع کا مطالبہ کرنے اور بیرون ملک غیر منصفانہ طرز عمل پر بھارت کو جوابدہ بنانے کے لیے ایک اہم آغازفراہم کرتی ہے۔